جسٹس شوکت کا خطرناک سچ

1523

بہت سی سچ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اظہار کے لیے بہت زیادہ جرأت درکار ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ ’’سچ اچھا پر سچ کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا‘‘۔ بہت کم لوگ سچ اور حق کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران میں قائد اعظم نے فوج کے سیاسی کردار کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ فوج کا کام حکومت کرنا نہیں بلکہ حکومت کی اطاعت کرنا ہے۔ اگست 1947ء میں قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے ایک بڑا استقبالیہ دیا جس میں مسلح افواج کے اعلیٰ افسران بھی شریک تھے جن میں لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان بھی موجود تھے جو بعد میں میجر جنرل بنے اور پنڈی سازش کیس کے حوالے سے مشہور ہوئے۔ ان کے ایک سوال پر قائد اعظم نے فوج کے افسران پر واضح کیا کہ ’’یہ مت بھولیں کہ آپ عوام کے نوکر ہیں، پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں، یہ ہمارا یعنی عوامی نمائندوں کا کام ہے۔ آپ کی ذمے داری منتخب حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔‘‘ قائداعظم کے ان الفاظ کا طالع آزماؤں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور عوام کے نوکر کئی بار عوام کے آقا بن بیٹھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا موقع عوام کے نالائق نمائندوں نے دیا لیکن کسی گھر میں اگر ناچاقی ہو، بد نظمی اور انتشار ہو تو گھر کا چوکیدار اندر گھس کر گھر پر قبضہ کرکے نہیں بیٹھ جاتا۔ مگر ایسا ہوا اور کئی بار ہوا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، نظریات کی حفاظت کرنا یا نئے نظریات دینا نہیں اور نظریات بھی وہ جو اپنے مطلب کے ہوں۔ بہر حال ایسا وقت کئی بار آیا اور گزر گیا۔ ایک بار پھر عوامی حکومت کے انتخاب کے لیے ڈول ڈالا جارہاہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ پاک فوج غیر جانبدار رہے گی اور اپنے گھوڑوں کو ریس جتوانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ پاکستان بھر میں لوگ لاپتا ہورہے ہیں، سب کے سامنے سے اٹھائے جارہے ہیں لیکن معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کون کررہاہے اور کون سی نادیدہ قوت اس میں ملوث ہے۔ لاپتا افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ کے بہت فعال چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے تو تمام ایجنسیوں کو ’’کلین چٹ‘‘ دے دی ہے کہ ہماری ایجنسیاں ایسے کسی کام میں ملوث نہیں۔ خدا کرے کہ ان کا بھرم قائم رہے اور جلد ہی یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایسی حرکتیں کون بلکہ کون کون کررہاہے۔ جناب چیف جسٹس کی طرف سے سند برأت جاری ہونے کے بعد گزشتہ بدھ کو عدالت عالیہ اسلام آباد کے جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے لاپتا افراد کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کچھ اور ہی کہاہے اور ایسا کہا ہے جسے جان پر کھیل جانا کہا جاسکتا ہے۔ جناب جسٹس شوکت عزیز نے اس سے پہلے بھی جو تبصرے کیے تھے ان کے نتیجے میں خود بھی ریفرنس کا سامنا کررہے ہیں اور موجودہ تبصرے پر فوری طور پر بار کونسلوں نے ناگواری کا اظہار کیا ہے اور اس معاملے میں وکلا کنونشن بلانے کی تیاری شروع کردی ہے۔ قانونی ماہرین نے جسٹس شوکت عزیز کے فیصلے میں دیے گئے ریمارکس کو عدالتی ضابطہ اخلاق کے منافی قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کا کہناہے کہ جج درخواست گزار کی استدعا سے باہر نہ جائیں اور جسٹس شوکت عزیز کی طرح فیصلوں میں اداروں کے حوالے سے ریمارکس اور حکم ناموں کے اجرا سے گریز کریں۔ عدالتی ضابطہ اخلاق کیا ہے، یہ تو ماہرین قانون ہی جانیں لیکن اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ کسی جج کو صرف سزا سنانے یا استدعا مسترد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن کچھ مقدمات ایسے ضرور ہوتے ہیں جن میں کڑوا سچ بولنے کی ضرورت بھی پیش آجاتی ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ خود وکلا کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نظر نہیں آتے اور عدالتوں پر چڑھائی کرنے، جج کو یرغمال بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ گزشتہ دنوں ایک وکیل نے تو برسر عدالت چیف جسٹس پاکستان سے گستاخی کی حد کردی تھی۔ ایسی وکلا گردی کے خلاف بار کونسلوں نے کیا کیا، اس کی کوئی اطلاع نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیا کہا ہے اور کیا وہ حقائق کے منافی ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ زبان زد عام ہے لیکن زبان کون کھولے کہ کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ جسٹس شوکت عزیز نے پاک فوج کے سربراہ جناب قمر باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ اپنے لوگوں کو روکیں جن سے جج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ آپ کے لوگ اپنی مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں، ججوں کو اپروچ کیا جارہاہے، ان کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں، لوگوں کو اٹھانا معمول بن چکا ہے، بھتے وصول کیے جاتے ہیں، کالے کرتوت سامنے آنے چاہییں۔ مداخلت بند نہ کی تو ریاست کے لیے تباہ کن ہوگا۔ جنرل باجوہ کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کے لوگ کیا کررہے ہیں۔ اگر واقعی یہ سب کچھ ہورہاہے تو جنرل باجوہ کو اس کا علم ہونا چاہیے کہ یہ بات کسی عام آدمی نے نہیں کہی، ایک معزز جج نے کہی ہے۔ امید ہے کہ ان کے پاس ثبوت بھی ہوں گے کیونکہ ایک جج سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بغیر ثبوت کے الزام لگانے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ آج کل انتخابات کے دوران میں ہر طرف سے یہ شور اٹھ رہا ہے کہ ایک پارٹی کی کھل کر طرف داری کی جارہی ہے اور دوسروں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔ کراچی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سوائے تحریک انصاف کے دوسری جماعتوں کے بینر اتارے اور پھاڑے جارہے ہیں۔ تاہم فوج کے ترجمان نے کہاہے کہ فوج براہ راست مداخلت نہیں کررہی اور سول اداروں کو مضبوط بنایا جارہاہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہناہے کہ خود حکومت ایک پارٹی کی سرپرستی کرکے انتخابات کو متنازع بنارہی ہے۔ عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو ملک میں انتشار کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کہتے ہیں کہ ’’سب کی چھٹی، لاڈلے کو کھلی چھوٹ، ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ اب یہ بتانے کے لیے کسی جسٹس شوکت کی ضرورت نہیں کہ لاڈلا کون ہے اور کون لاڈ اٹھارہا ہے۔ عمران خان کو پتا ہے کہ اس وقت انہیں کس کے ووٹ کی ضرورت ہے۔ وہ فوج کو کرپشن سے پاک ہونے کی سند جاری کرچکے ہیں۔ زرداری اور نواز شریف کی طرح وہ مسلح افواج سے ٹکراؤ مول نہیں لے سکتے۔ لیکن جسٹس شوکت نے تو براہ راست ایک بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ فوج پر عدلیہ پر دباؤ ڈالنے، مرضی کا بینچ بنوانے اور لوگوں کو اٹھوالینے کے الزامات ایسے ہیں جن کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے۔ ججوں کی زندگیاں خطرے میں ہوں اور ان پر دباؤ ڈالا جارہاہو تو ایسے میں عدالتوں سے انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے اور جس معاشرے میں انصاف کا حصول ممکن نہ ہو اس کی تباہی میں دیر نہیں لگتی۔ پھر تو فوجی عدالتیں ہی لگتی ہیں جو فوری فیصلہ تو کرتی رہی ہیں لیکن کیا انصاف بھی کرتی رہیں، یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ جسٹس شوکت کی حق گوئی کو سراہا جانا چاہیے۔