دو دن رہ گئے مگر ۔۔۔

270

صرف دو دن بیچ میں رہ گئے ہیں اور اب یہ خدشات معدوم ہوگئے ہیں کہ 25جولائی کے عام انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔ فوج کے سربراہ، عدلیہ اور عبوری حکومت سب ہی یقین دلا رہے ہیں کہ انتخابات مقررہ تاریخ ہی پر ہوں گے تاہم موسم کے تیور بدل رہے ہیں جس کی وجہ سے رائے دہندگان کو رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں اور اگر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی پوری ہوگئی تو ٹرن آؤٹ یا رائے دہندگان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں میں طوفانی بارشیں ہوئی ہیں، جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہے، دو پولنگ اسٹیشن بھی دریا برد ہوگئے۔ بارشوں کا یہ سلسلہ مزید 10دن جاری رہے گا اور 25جولائی کو بھی کراچی اور حیدر آباد سمیت ملک بھر میں شدید بارشوں کا امکان ہے۔ ایسے میں ووٹر کا گھر سے نکلنا دشوار ہو جائے گا۔ لیکن ہر صورت میں ووٹ ڈالنے کی کوشش ضرور کی جائے۔ جہاں صورت حال طوفانی ہو جائے وہاں رعایت دینی چاہیے اور پولنگ کی تاریخ بڑھانے میں کوئی ہرج نہیں کہ اصل مقصد تو ہر ایک کو انتخابی عمل میں شریک کرنا ہے۔ بارشوں سے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ سوکھے پڑے ہوئے دریاؤں میں پانی موجیں مار رہا ہے اور دریائے سندھ میں تو طغیانی آگئی ہے۔ اگر مزید ڈیمز بن چکے ہوتے تو سیلاب کا خدشہ ہوتا نہ طغیانی کا اور بارش کا پانی ضائع بھی نہ ہوتا۔ بہرحال یہ الگ معاملہ ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دو دن رہ گئے ہیں مگر ہزاروں پولنگ اسٹیشنز بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسلام آباد تک کے متعدد پولنگ اسٹیشن مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے کتنے ہی پولنگ اسٹیشن ایسے ہیں جو چار دیواری سے بے نیاز ہیں، پولنگ کے عملے کے لیے غسل خانے نہیں ہیں۔ کمروں میں پنکھے نہیں اور بجلی کی فراہمی بھی یقینی نہیں ہے گو کہ گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن کیا عملے اور رائے دہندگان کو بارش سے بچانے کا انتظام ہے؟ سیکڑوں پولنگ اسٹیشنز حساس قرار دے دیے گئے ہیں۔ اس سے رائے دہندگان میں خوف پیدا ہونا لازمی ہے۔ دہشت گرد اور تخریب کار ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جب زیادہ لوگ جمع ہوں۔ ہزاروں پولنگ اسٹیشن غیر محفوظ اور سیکڑوں حساس ہیں ۔ حساس قرار دینے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ کہ وہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا انہیں محفوظ بنانے کی ذمے داری کسی پر نہیں۔ امن و امان کے ذمے دار ادارے اور الیکشن کمیشن حفاظتی اقدامات اور پولنگ اسٹیشنوں کو محفوظ اور معیاری بنانے میں اب تک ناکام ہیں۔ سندھ میں 3ہزار 688، بلوچستان میں 576، خیبر پختونخوا میں 570 اور پنجاب میں 107 پولنگ اسٹیشنز بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ پانی، بجلی اور چار دیوار تک نہیں ۔ الیکشن کی تاریخ اچانک سر پر نہیں آگئی۔ یہ کوئی راز نہیں تھا کہ انتخابات 2018ء میں ہونے ہیں۔ بنیادی انتظامات تو پہلے سے کر لیے جانے چاہییں تھے۔ پھر ایسی عمارتوں کو پولنگ اسٹیشن بنانے کے لیے کیوں منتخب کیا گیا جہاں چار دیوار ہے نہ دیگر سہولتیں۔ اس کے علاوہ شناختی کارڈ بروقت فراہم کرنے میں نادرا نے کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو چیئرمین نادرا کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے پایا ہے کہ شناختی کارڈ 25جولائی سے پہلے جاری کردیے جائیں گے۔ یعنی دو دن بعد 25جولائی تک یہ کام ہو جائے گا۔ کیا واقعی ایسا ہوسکے گا۔ شناختی کارڈوں کی چھپائی اور ان کی ترسیل کا کام برسوں میں مکمل نہیں ہوسکا تو دو دن میں کیسے ہو جائے گا۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا محاورہ صرف سنا ہی سنا ہے، سرکاری محکموں میں تو اپنا حق حاصل کرنے میں خون جم جاتا ہے۔ جب نادرا کا محکمہ وجود میں نہیں آیا تھاتو شناختی کارڈ کا حصول آسان تھا۔ انتخابات پر اب تک جانبداری کے سائے منڈلا رہے ہیں اور نادیدہ قوتوں کو مورد الزام ٹھیرایا جارہا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے جلسوں میں زور دیا ہے کہ انتخابات کو غیر جانبدار بنانا عبوری حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ عبوری حکومت کے نحیف کاندھوں پر ایسی ذمے داری ڈالنا حقائق سے بعید ہے کہ چند دن کے لیے اقتدار میں آنے والے ایسے کام کرتے پھر رہے ہیں جو ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ یوں بھی عبوری حکومت خود دباؤ میں ہے۔ رہا الیکشن کمیشن تو یہ بھی پاکستان میں مضبوط نہیں ہوسکا۔ جن ممالک میں الیکشن کمیشن مضبوط اور خود مختار ہے وہاں عبوری حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن دھاندلی سے پاک شفاف انتخابات کرا دے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ پاکستان میں کسی بھی دور میں دھاندلی سے مبرا اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ سینیٹر سراج الحق نے یہ بھی کہا ہے کہ ماضی میں انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور مچتا تھا مگر اس بار پہلے ہی شور مچ گیا۔ یہی صورت حال رہی تو انتخابی نتائج کوئی قبول نہیں کرے گا اور اس سے وفاق کو نقصان پہنچے گا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں دھاندلی کے ریکارڈ سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں قائم کیے اور اس کے ذمے دار ان کے لاڈلے ذوالفقار علی بھٹو تھے جو اپنے ڈیڈی کی محبت میں تمام حدوں سے گزر گئے تھے اور پھر خود بھی 1976ء کے انتخابات میں ایسے ریکارڈ قائم کیے کہ قوم نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان لوگوں پر بھٹو نے گولیاں چلوادیں اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ فوج کے سربراہ جمہوریت کے تحفظ کا یقین دلا رہے ہیں اور فوج نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے پھر بھی لوگوں کو شک ہے کہ ایک خاص جماعت کی طرف داری کی جارہی ہے۔ خدا کرے کہ 25جولائی کا معرکہ بخیر و خوبی طے ہو جائے اور ملک جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے۔ منتخب حکومت شاید معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو جائے۔