ملک میں تیزی سے تشکیل پانے والے منظر نامے میں میثاق جمہوریت کی راکھ کریدنے کی خواہش بھی شامل ہے۔ اس وقت انتخابی میدان کے تمام کھلاڑی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ نہ ملنے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کے شکوے تو اپنی جگہ تھے مگر تحریک انصاف بھی خیبر پختون خوا کے نگران وزیر اعلیٰ پر پسند وناپسند کا الزام عائد کر رہی ہے۔ یوں انتخابات کے حوالے سے سب نے پتلی گلی سے نکلنے کا راستہ کھلا رکھ چھوڑا ہے یوں جس قوت کے لیے جہاں نتائج دل شکن ہوں گے اس کے پاس دھاندلی کا موقف اپنانے کا جواز بھی ہوگا۔ اس طرح ہر سیاسی قوت کسی نہ کسی انداز سے انتخابات کے حوالے سے اپنے خدشات اور شکایات کے دفاتر کھولے ہوئے ہے۔ فوج نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ان کا انتخابات میں اس کے سوا کوئی رول نہیں کہ وہ الیکشن کی معاونت کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن جو رول متعین کر ے گا فوج وہی ادا کرے گی۔ اس دوران مسلم لیگ ن کے حلقوں میں تیزی سے احساسِ زیاں پیدا ہو رہا ہے کہ انہوں نے مختلف مواقع پر حالات میں گھرے آصف زرداری کا ہاتھ نہ تھام کر تاریخی غلطی کی۔ میثاق جمہوریت کی کشتی سے اتر کر درحقیقت دونوں جماعتوں نے اپنی سیاسی تنہائیوں کا سامان کیا۔ آج دونوں جماعتیں جس بھنور میں گھری ہیں وہ لندن کی فضاؤں میں ہونے والے اسی معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کی سزا ہے۔ مسلم لیگ ن کا احساس زیاں اپنی جگہ خود بلاول زرداری نے بھی انتخابات کے بعد ایک نئے میثاق جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دیا ہے۔
میثاق جمہوریت ملک کی دو متحارب سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے درمیان عالم جلاوطنی میں ہونے والا تحریری معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ برطانوی حکومت کی خصوصی دلچسپی سے اس وقت ہوا تھا جب جنرل پرویز مشرف تن من دھن سے مغرب کی خدمت کر رہے تھے اور فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ بش اور بلیئرمیرے ساتھ ہیں۔ واضح رہے کہ جنرل مشرف نے یہ جملہ دہلی میں کشمیری راہنما سید علی گیلانی سے ہونے والی ایک تلخ ملاقات میں ادا کیا تھا۔ علی گیلانی جنرل مشرف کی کشمیر پالیسی پر تنقید کررہے تھے کہ جنرل مشرف طیش میں آگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میں کشمیر کا مسئلہ اپنے انداز سے حل کروں گا کیوں کہ بش اور بلیئر میرے ساتھ ہیں۔ حقیقت میں نہ بش اور نہ ہی بلیئر ان کے ساتھ تھے۔ وہ اپنے مفادات کے ساتھ تھے جب تک جنرل مشرف مفادات پورے کرتے رہے وہ ان پر سایہ فگن رہے جب انہیں تازہ دم خدمت گاروں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے جنرل مشرف کے سر سے اپنی چھتری ہٹالی اور یوں وہ حالات کے تپتے سورج کے رحم وکرم پر رہ گئے۔ پیپلزپارٹی نے سسٹم کے خیمے میں سرداخل کیا اور پھر خیمہ سر پر اُٹھالیا اور ایک روز جنرل پرویز مشرف پرنم آنکھوں سے ایوان صدر سے رخصت ہورہے تھے۔ میثاق جمہوریت کو بھی جنرل مشرف اپنا کمبل چرانے کے لیے سجایا جانے والا میلہ سمجھتے رہے۔
میثاق جمہوریت میں دو بڑی سیاسی جماعتوں نے جو نوے کی پوری دہائی ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہیں جیو اور جینو دوکا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس معاہدے کی یاد میں دستخط کے لیے استعمال ہونے والے قلموں کے تبادلے بھی ہوئے۔ دونوں جلاوطن لیڈر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف وطن واپس لوٹ آئے اور ان کے سامان میں میثاق جمہوریت کے مسودے بھی تھے مگر وہ میثاق جمہوریت کی روح لندن ہی میں کہیں ٹیمز کنارے چھوڑ کر آئے۔ یہاں آکر دونوں سیاسی قوتوں نے ملک کے زمینی حالات کے مطابق اپنی اپنی حکمت عملی اور اپنی راہیں تلاش کرنا شروع کیں۔ بے نظیر بھٹو عملیت پسندی کی راہوں پر چل پڑیں کیوں کہ انہیں اندازہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد حالات کی باگ انہی کے ہاتھ میں ہوگی اور اس لیے جنرل مشرف سے چند ماہ نباہ کرنے اور مذاکرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے برعکس نواز شریف ہمیشہ کی طرح مثالیت پسندی کی راہوں پر گامزن رہے۔ ان کے خیال میں جنرل مشرف کے ساتھ شریک اقتدار ہونے کا مطلب سیاسی خود کشی ہے۔ اس طرح دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی۔آصف زرداری کے منظر پر اُبھرنے کے بعد تو عملیت پسندی کے چشمے چہار سو اُبل پڑے اور انہوں نے میثاق جمہوریت کو مفاہمتی سیاست کا جامع نام دیا۔ مفاہمتی سیاست کا مطلب اپنی اپنی دنیاوں اور اپنے دائروں میں سفر تھا۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں میں میثاق جمہوریت ورق در ورق راکھ ہوتا چلا گیا یہاں تک باقی صرف راکھ ہی بچ گئی۔ اب نئے حالات میں اس راکھ سے چنگاریوں کی تلاش ہو سکتی ہے مگر زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔
میثاق جمہوریت سے زیادہ آج حسن نیت اور حسن عمل کی ضرورت ہے۔ اب فوج اور سیاسی جماعتوں سمیت سب کو بدلنا ہوگا۔ اس کے لیے کاغذ کے کسی نئے پرزے کی ضرورت نہیں۔ آئین سب سے بڑا میثاق ہے۔ مختلف یونٹس کے درمیان بنیادی عمرانی معاہدہ آئین کی شکل میں ہی موجود ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آئین پر عمل نہیں کیا گیا۔ خاکی بیوروکریسی نے تو آئین کو طاق میں رکھنے میں زیادہ جھجک محسوس نہیں کی مگر سویلین حکمرانوں نے بھی آئین کو محض نمائش کی کوئی شے بنا کر رکھ چھوڑا۔ ضرورت اس امر کی ہے ملک کے تمام ادارے آئین کے احترام کا عزم کریں، بدعنوانی سے توبہ کریں، اپنے اندر شہنشاہیت کی خوبو ترک کر کے جمہوریت اپنالیں تو جمہوریت ہر قسم کے خوف اور خطرات سے آزاد ہوجائے گی اور آئین پاکستان ہی جو میثاق پاکستان بھی ہے اور میثاق جمہوریت بھی اور اس کی موجودگی میں کسی نئے معاہدے اور میثاق کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔