خیبر پختونخوا میں کرپشن کی تحقیقات

417

کچھ معاملات بڑی حد تک یک طرفہ چل رہے ہیں۔ ابھی تک تو ن لیگ ہی گرداب میں ہے اور عمران خان خوش ہورہے ہیں کہ جلد ہی شہباز شریف بھی پکڑ میں آجائیں گے۔ لیکن عمران خان کی باری بھی آسکتی ہے۔ اگر ان کے سرپرستوں کو احساس ہوگیا کہ وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گے تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران میں جو بد عنوانیاں ہوئی ہیں وہ سامنے تو آچکی ہیں لیکن کسی کی پکڑ دھکڑ نہیں ہوئی۔ عمران خان کے معتمد اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کروڑوں روپے کی چائے پلادی۔ جو نیا پاکستان بنانے کے دعویدار ہیں ان کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران میں جو بھی گھپلے ہوئے ہیں ان کے ذمے دار خود عمران خان ہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے تو جسٹس وجیہہ کی سرکردگی میں احتساب کا نظام صوبے سے ختم کیا۔ ان کے کئی وزرا کرپشن میں ملوث پائے گئے، صوبائی اسمبلی کے اسپیکر متعدد گاڑیوں پر قابض تھے اور شاید اب بھی ان کی تحویل میں ہیں۔ نیب پختونخوا نے مختلف سرکاری محکموں کے افسران کے خلاف بد عنوانی کی تحقیقات کی منظوری دے دی۔ ظاہر ہے کہ تحقیقات انتخاب ہوجانے کے بعد ہی شروع ہوگی۔ تب تک شاید اس کا امکان ہی نہ رہے اور لاڈلا ہر خطرے سے بے نیاز ہوجائے۔ چیئرمین نیب نے بی آر ٹی پروجیکٹ میں بے قاعدگیوں، اخراجات میں اضافے اور منصوبہ بروقت مکمل نہ کرنے پر بھی فوری تحقیقات کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ مذکورہ منصوبے کو جون میں مکمل ہوجانا چاہیے تھا تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ جنگلہ بس کا شور مچانے اور طنز کرنے والے اپنے صوبے کی خبر تو لیں۔ کم از کم ایک صوبے ہی میں نیا پاکستان بناکر دکھادیتے۔ نیب چیئرمین نے خیبر پختونخوا ہاؤس میں کرپشن، منظور نظر افراد کو ٹھیکا دینے پر پی ڈبلیو ڈی ’’پپکو‘‘ غیر قانونی فروٹ منڈی بنانے پر ٹی ایم اے کے خلاف بھی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہاکہ محکمہ سیاحت و جنگلات کے خلاف بھی انکوائری کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ بی آر ٹی منصوبہ مقررہ وقت میں کیوں مکمل نہیں ہوا اور اخراجات کیوں بڑھے؟۔ ایک طرف تو کئی ارب درخت لگانے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف چترال میں غیر قانونی طور پر جنگلات کاٹے جارہے ہیں۔ اسی دوران میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 9 جامعات بنانے کا تحریک انصاف کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پول کھول دیا اور بتایا ہے کہ صرف 4 جامعات کی رجسٹریشن کرائی گئی ہے۔ عمران خان صوبے میں 9 جامعات بنانے کو اپنی انتخابی مہم میں خوب استعمال کررہے ہیں جس طرح بلاول زرداری اپنے ہر جلسے میں متعدد جامعات اور اسپتال بنانے کے دعوے کرتے پھررہے ہیں۔ جامعات ایک طرف سندھ میں تو اسکولوں کا پرسان حال بھی کوئی نہیں ہے۔ لیکن زبان ہلانے میں کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی بد حواسی کا یہ عالم ہے کہ ہفتے کے دن اٹک میں اسٹیج پر چڑھتے ہوئے اپنے ہی امیدوار صوبائی اسمبلی کو تھپڑ ماردیا۔ وہ ا پنے ساتھیوں ہی کو نہیں پہچانتے تو بعد میں عوام کو کیسے پہچانیں گے۔ فی الوقت تو زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے پر توجہ ہے چنانچہ کہاہے کہ انہیں طاقت ور حکومت درکار ہے ورنہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ اپوزیشن میں بیٹھے تو کیا اس بار قومی اسمبلی میں آیا کریں گے؟