سیکولر ووٹ پانچ حصوں میں تقسیم ہے

399

ووٹ کو عزت دینے کا وقت آگیا ہے۔ پورے ملک میں ایک عجیب کھچڑی بن رہی ہے بلکہ بنائی جارہی ہے۔ کہیں لوٹے جمع کیے گئے ہیں تو کہیں ناراض لوگوں کو جیپ میں بٹھادیا گیا ہے، ساری توجہ (ن) لیگ کو لپیٹنے پر ہے۔ لیکن اس دوران کچھ چیزیں ایسی ہوئی ہیں جو یہ سارا کھیل کھیلنے والوں کی نظر سے اوجھل ہوگئیں یا اب ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ انتخابی کھیل بگاڑنے بنانے والوں نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا، ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔ نواز شریف نے جلوسوں کا راستہ اپنایا اور براہ راست فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنایا، ان کی مقبولیت بحال ہوگئی جواباً ان کو جیل جانا پڑا۔ ان کے کئی ارکان اور سابق ارکان اسمبلی ٹوٹ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے ہیں اور بہت سے چودھری نثار کے گرد جمع ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ بھی میدان میں ہیں۔ احتیاط سے بات کی جائے تو بھی نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ ان دونوں کا نشانہ بھی مسلم لیگ (ن) ہی ہے۔ دو تین ضمنی انتخابات میں ٹیسٹ بھی ہوچکا ہے لیکن ان کی وجہ سے پنجاب کے سوا بقیہ پاکستان میں کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ دونوں اگرچہ دینی جماعتیں ہیں اور اگر یہ بھی دینی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ ہوتیں تو نتیجہ مسلم لیگ کے خلاف ہی ہوتا اور کچھ زیادہ موثر ہوجاتا۔ بہرحال صورت حال یہ ہے کہ انتخابات 2018ء کا نقشہ بنانے والوں نے اس بات کا اہتمام تو کرلیا کہ مسلم لیگ کو گھیرا جائے لیکن عدالتوں سے مسلسل فیصلوں کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بحال ہورہی ہے۔
انتخابات 2018ء کی ایک اور اہمیت کراچی و حیدر آباد میں سامنے آرہی ہے۔ اب تک کراچی و حیدر آباد میں 1988ء سے ایم کیو ایم یا متحدہ قومی موومنٹ انتخابات لڑتی اور کامیابی حاصل کرتی تھی۔ اس نے کراچی و حیدر آباد کے دینی و سیاسی ووٹوں کو مہاجر کے نام پر اُچک لیا تھا۔ ٹھپے الگ تھے، اور سارا سیکولر ووٹ بھی متحدہ کی جھولی میں گرتا تھا، اب تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی میں سیکولر ووٹ پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، پی پی پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پی ایس پی اور حقیقی۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ بھی تقسیم کے مراحل میں ہے اور ان کے مقابلے میں دینی و مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس مرتبہ مقابلہ دینی ووٹوں اور سیکولر قوتوں کا ہے۔ سیکولر قوتوں کی تعداد بھی کم ہے اور کراچی و حیدر آباد کا مزاج بھی ہمیشہ سے دینی رہا ہے۔ انتخابی مہم کے حوالے سے بھی ایم ایم اے جارحانہ مہم چلا رہی ہے جب کہ پی پی پی اور متحدہ والے مستقل حکومت میں رہنے کی وجہ سے وضاحتی پوزیشن میں ہیں، تین عشروں میں پہلی مرتبہ ان پارٹیوں کے بڑے بڑے رہنماؤں کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ختم نبوت کے حوالے سے پی ٹی آئی بھی اُلٹے قدموں پر ہے اور (ن) لیگ بھی اس کے ساتھ ہے جب کہ مجلس عمل اس حوالے سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے بیشتر امیدوار چوں کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور جماعت اسلامی کے پاس خدمت کا بہت بڑا ریکارڈ ہے۔ کراچی کی شکل بدلنے، کرپشن کے خاتمے، نئے پروجیکٹس لانے اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں اور پارکوں، سڑکوں اور پلوں کا جال بچھانے کے حوالے سے عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کا ریکارڈ اس شہر کے لوگوں کے سامنے ہے۔ یہ لوگ اپنا ریکارڈ لے کر عوام میں جارہے ہیں پزیرائی بھی مل رہی ہے۔ شاید ایک دن میں ایک ایک ووٹر تک پہنچنا ممکن نہ ہو لیکن لوگ منتظر ہیں کہ کسی طرح ایم ایم اے والے ہمارے پاس آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض حلقوں کی نئی تنظیم بھی ایم ایم اے کو فائدہ پہنچارہی ہے۔ مثلاً محمد حسین محنتی کے حلقے 247 برنس روڈ، کھارادر وغیرہ کا علاقہ شامل ہونے سے ان کو فائدہ ہورہا ہے وہ یہاں سے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔ این اے 245 میں پٹیل پاڑہ وغیرہ کا علاقہ سیف الدین ایڈووکیٹ کی مہم کو تقویت دینے کا سبب بن رہا ہے۔ وہاں سے ووٹ بھی نکلتے ہیں اور ٹرانسپورٹرز بھی، جب کہ درمیان میں ان کے اپنے یوسی کے علاقے ہیں۔ اسی طرح زاہد سعید اور جنید مکاتی کو این اے 244 اور پی ایس 103 پر میدان کھلا ہوا ملا ہے۔ جنید مکاتی خود تین مرتبہ یوسی ناظم رہے ہیں اور زاہد سعید بھی دو مرتبہ یوسی ناظم رہے ہیں۔ دونوں کے اپنے حلقے اس میں شامل ہیں۔ حافظ نعیم، معراج الہدیٰ صدیقی، لئیق خان، اسد اللہ بھٹو۔۔۔ یہ سب کے سب صرف خدمت کا ریکارڈ لے کر اترے ہیں اور سب کو پزیرائی مل رہی ہے۔ سامنے سیکولر ووٹ بُری طرح منقسم ہے۔ اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی مسلمان ووٹر کو کس بنیاد پر پکارنے کی ضرورت ہے۔ ان کے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد بھی ریکارڈ ہے اور ان کے تحفظ کی ضمانت بھی ایم ایم اے میں ملے گی۔