ظفر اقبال کا شعر ہے
چھپی ہوئی کوئی بجلی گھٹا میں شامل ہے
کہ ایک اور ہوا بھی ہوا میں شامل ہے
وہ بات جو بین السطور لکھی اور سرگوشیوں میں کہی جاتی تھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز نے اسے واشگاف کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’عدلیہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آگئی ہے۔ اس دور میں آئی ایس آئی پوری طرح عدالتی معاملات میں اور جوڑ توڑ میں ملوث ہے۔ آئی ایس آئی اپنی مرضی کے بنچ بنواتی ہے۔ انہوں نے ہمارے چیف جسٹس کو اپروچ کرکے کہا کہ نوازشریف اور مریم کو انتخاب سے قبل باہر نہیں آنے دینا ہے۔‘‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کا کہیں کوئی امکان تھا بھی تو جسٹس صاحب کی تقریر ان امکانات کے مقابل کھڑے ہوگئی ہے۔ اب صرف نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کٹہرے میں نہیں ہیں عدلیہ، فوج، ریاست اور حکومت سب کٹہرے میں آکھڑے ہوئے ہیں۔
انتخابات کی شفافیت سے متعلق ویسے ہی ان گنت سوال زیر بحث ہیں۔ جسٹس صاحب کے بیان کے بعد اب نہ کسی کی جیت کی معنویت رہے گی اور نہ کسی کی ہار میں حقیقت کا کوئی پہلو۔ جب سب کچھ انجینئرڈ ہی کرانا ہے تو الیکشن کے فریب کی کیا ضرورت ہے۔ براہ راست ہی اپنے پسندیدہ افراد کو اقتدار سونپ دیا جاتا۔ نواز شریف اور مسلم لیگ کے نمائندوں کو جو امتحان درپیش ہے اس میں کہیں خوبی تقدیر کا کوئی پہلو تھا تو اب وہ کہیں زیر بحث نہیں رہا۔ نواز شریف کی مظلومیت اور ان کے ساتھ ناانصافی کا تاثر گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے حقیقی مقتدر قوتیں اور عدلیہ کے جسٹس صاحبان اندازہ نہیں کرسکتے کہ عوام کی نظر میں اب ان کی اوقات کیا رہ گئی ہے۔ عمران خان نے اقتدار کے حصول کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ انہیں اقتدار ملنا کوئی حیرت اور اچھنبے کی بات نہیں لیکن اداروں کی کرم نوازیوں نے ان کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن ان کے مقابل پورے قد، طاقت اور آزادی سے کھڑی ہوتی تب بھی ان کی جیت کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن جس طرح ان کے مقابل امیدواروں کو باندھ جوڑ کر ایک طرف ڈال دیا گیا ہے اور انتخابی میدان ان کے لیے خالی کرایا گیا ہے وہ عمران سے دوستی نہیں دشمنی کے مترادف ہے۔
فوج کے ترجمان نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ وہ جسٹس شوکت کی تقریر کا نوٹس لے۔ چیف جسٹس صاحب نے فوری تعمیل بھی کردی اور جسٹس شوکت عزیز کی تقریر کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ جسٹس شوکت نے اس کے جواب میں چیف جسٹس صاحب سے مطالبہ کیا ہے کہ: ’’حقائق کی تصدیق کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ کمیشن کی سربراہی پی سی او ججز سے نہ کرائی جائے۔‘‘ جسٹس صاحب کے مطالبات کب حقیقت بنتے ہیں لیکن ماضی کے متعدد واقعات ہیں جو جسٹس صاحب کی تقریر سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان کے بیانیہ کی تائید کرتے ہیں۔ کب ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست اور عدالتوں میں مداخلت نہیں کی ہے اور ہماری عدلیہ نے دباؤ میں آکر فیصلے نہیں دیے۔ سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کو دخل دینے سے آج تک کوئی وقار اور عزت حاصل نہیں ہوسکی۔ بھٹو صاحب کچھ برس اور سیاست میں رہ جاتے تو عوام کو خود ہی ان کا فیصلہ کردینا تھا لیکن ایک بے بنیاد مقدمے میں انہیں پھانسی دے کر زندہ جاوید کر دیا گیا۔
نواز شریف یا کسی بھی سیاست دان کو قانون سے بالاتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سیاست دان کو یقیناًایک سیاسی عصبیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس عصبیت کو انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا جاسکتا لیکن نواز شریف پر جس طرح مقدمہ چلایا گیا جس جلد بازی میں ان کے خلاف فیصلے سنائے گئے اور پھر ان فیصلوں پر عدالتی حلقوں میں جس طرح تحفظات کا اظہار کیا گیا اس کے بعد ان کا مقدمہ اور ان کے خلاف کیے گئے فیصلے نارمل اور فطری فیصلے نہیں رہے۔ ان میں مداخلت کے امکان سب کو نظر آرہے ہیں۔ جسٹس شوکت کا کردار یہ ہے کہ انہوں نے دلیری سے ان امکانات کو زبان اور شبہات کو حقیقت کا رنگ دے دیا ہے۔ اب نواز شریف کا مقدمہ کرپشن اور جزا وسزا کا مقدمہ نہیں رہا۔ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہوگیا ہے۔ عدالت اب ان کے خلاف جو بھی اور جتنے بھی فیصلے دیتی رہے نواز شریف کے مقدموں کا حل بالآخر سیاسی ہی ہوگا۔
انصاف کے تقاضوں کو روندتے ہوئے ایک پارٹی کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ہماری عدلیہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کررہی ہے۔ ہماری عدالتوں نے ہمیشہ حکومت وقت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر فیصلے دیے ہیں۔ کل شیخ رشید کی سزا عدلیہ اور حکومت وقت کی سازش کا نتیجہ تھی آج حنیف عباسی کی عمر قید کی سزاسراسر نا انصافی اور گٹھ جوڑ کا نتیجہ نظر آتی ہے۔ جس طرح شیخ رشید احمد کے خلاف فیصلے اور سزا سے بے نظیر حکومت کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوا تھا اسی طرح آج حنیف عباسی کی عمر قید عمران خان اور شیخ رشید کی توقیر کا باعث نہیں بنے گی۔ حنیف عباسی پر چھ سال سے زیر سماعت مقدمے کی سماعت دو اگست مقرر تھی اچانک اس کا فیصلہ الیکشن سے قبل 21جولائی کو اور وہ بھی رات گیارہ بجے سنا دینے سے ایک منشیات فروش اپنے انجام کو نہیں پہنچا عدلیہ بے توقیر ہوئی ہے۔ فوائد سیاسی یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہوں یا نہ ہو عدلیہ کے حصے میں سوائے بدنامی اور ذلت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ حنیف عباسی کے فیصلے سے عدلیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ فیصلے جس انداز میں کیے جارہے ہیں انصاف کے اعتبار سے یہ کوئی خوش کن بات نہیں ہے۔
اسفل دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے ہماری عدلیہ اور جج حضرات جس خسارے کا سودا کررہے ہیں وہ ان کی دنیا ہی نہیں آخرت بھی برباد کردے گا۔ آخر میں ایک حکایت جج صاحبان کی نذر۔
بنی اسرائیل میں ایک قاضی صاحب کا آخری وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ تدفین کے کچھ عرصے بعد میری قبر کھول کر دیکھی جائے۔ میں نے سنا ہے انصاف کرنے والے قاضی کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی۔ متعدد مقدمات میں مجھے حکومت کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، کتنی ہی مرتبہ مجھے بڑی بڑی رقوم اور مراعات کی پیش کش کی گئی، کئی مرتبہ میرے قریب ترین عزیزوں کے مقدمات میری عدالت میں چلے میں نے کبھی انصاف کی راہ سے بال برابر انحراف نہیں کیا۔ کبھی ترازو کو جھکنے نہیں دیا۔ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں۔ کبھی انصاف کو پامال کرکے فیصلے نہیں سنائے۔ کبھی جانبداری نہیں برتی۔ اگر کچھ یاد ہے تو بس اتنا یاد ہے کہ ایک مرتبہ فریق مخالف کے مقابلے میں اپنے ایک قریبی عزیز کی بات زیادہ کان لگا کر سن لی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی نا انصافی کی ہو مجھے یاد نہیں۔ قاضی صاحب کے مرنے کے کچھ عرصے بعد ان کی قبر کھول کر دیکھی گئی تو پوری قبر خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ قاضی صاحب کا جسم بھی ایسا تروتازہ تھا جیسے ابھی دفنایا گیا ہو البتہ دایاں کان مٹی نے کھا لیا تھا۔