ہر مسئلہ سیاسی ہے

250

سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو سنائی گئی سزا سیاسی ہے۔ انور شعور کا کہنا ہے
خلق کا اصل مسئلہ ہے رزق
باقی ہر مسئلہ سیاسی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ہر مسئلہ سیاسی ہے، شاید سیاست ہمارے لہو میں سرایت کرچکی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ سیاست دانوں نے رزق کو بھی سیاسی مسئلہ بنادیا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے قبل ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے، اور اب الیکشن ہورہے ہیں تو سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ حکومت کون بنائے گا؟۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے بعد میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو سیاست سے بے دخل کردیا جائے گا اور یوں عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ گزشتہ دنوں اسی موضوع پر گفتگو ہورہی تھی، ایک بزرگ نے کہا آپ کے تبصرے کی سیاسی بنیاد تو قابل قبول ہے کہ عمران خان کا پروپیگنڈا سیل عوام کو یہ باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان ہی وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہوں گے مگر جس طرح فوج کو سیاست میں ملوث کیا جارہا ہے وہ ایک ناقابل قبول عمل ہے، کیوں کہ عمران خان کبھی اور کسی بھی صورت میں فوج کے لاڈلے نہیں ہوسکتے۔
ہمارے دانش ور اور سیاست دان جن معاملات اور مسائل پر غور کرنا اور سمجھنا نہیں چاہتے فوج ان پر ہر پہلو سے غور و خوض کرتی ہے۔ مثلاً آج تک ہمارے کسی دانش مند یا سیاست دان نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی صاحبزادی دینا واڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کے اسباب پر سوچنا گوارا نہیں کیا، یہی معاملہ عمران خان اور ان کے صاحبزادگان کا ہے بلکہ عمران خان کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیوں کہ عمران خان نے جمائما خان کو مسلمان کیا، شادی کی اور جب ان کی نسل میں اضافہ ہوگیا تو انہوں نے جمائما خان کو اضافی سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو جمائما خان کے بیٹوں کے لیے انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔ اس حقیقت سے تو ساری دنیا واقف ہے کہ یہودی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، اس پس منظر میں سوچیے کہ جمائما خان کے صاحبزادوں کا مسلمانوں کے بارے میں کیا خیال ہوگا؟ اور وہ کیا سوچتے ہوں گے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس حقیقت کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جاتی۔
سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ جب لندن میں میئر کا انتخاب ہورہا تھا تو عمران خان نے جمائما خان کے بھائی کی انتخابی مہم چلائی تھی اور پاکستانیوں کے ووٹ جمائما خان کے بھائی کو دلائے تھے، جبکہ اکثر بھارتی مسلمانوں حتیٰ کہ ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستانی نژاد صادق خان کو ووٹ دیے تھے۔ اس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ عمران خان نے جمائما خان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستانی نژاد مسلم کے لیے ووٹ نہیں مانگے تھے بلکہ اپنے صاحبزادوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے سابق سالے کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس پس منظر میں اگر عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تو ان کی ساری پالیسیاں اپنے صاحبزادوں کو یہ باور کرنے کے لیے ہوں گی کہ وہ دیگر مسلمانوں کی طرح یہودیوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ان کے خیرخواہ ہیں اور یہ خیرخواہی کسی بھی حد تک ہوسکتی ہے۔ بزرگ کی بات سن کر تحریکی جوان پروپیگنڈا چلانے لگے۔ ان کے شور و غل سے متاثر ہوئے بغیر بزرگ نے کہا اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ ساری داستان عمران خان کے خلاف ایک پروپیگنڈا سے زیادہ کچھ نہیں تو تم نے یا عمران خان نے اس کی تردید کیوں نہیں کی؟۔ لندن کے مسلمانوں سے تصدیق کیوں نہیں کرائی، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم نہیں سوچتے، ہم صرف لیگی ہیں، پیپلی ہیں اور تحریکی ہیں مگر پاکستانی نہیں ہیں۔