الیکشن: تحریک انصاف اور عدلیہ کی تحریک مذاق کا سنگم 

328

صاحبو! الیکشن نہیں یہ تحریک انصاف اور عدلیہ کی تحریک مذاق کا سنگم ہیں۔ اکانومسٹ لندن نے حیرت ظاہر کی ہے کہ خود عدالت نے کہا ’’لندن فلیٹس کی ملکیت نواز شریف کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا پھر سزا کیسے ہوگئی‘‘۔ اکانو مسٹ کو یہی کہا جاسکتا ہے ’’چپ رہو کیا تم ہمارے ججوں سے زیادہ قنون جانتے ہو‘‘۔ اس جواب کا پس منظر وہ پرانا لطیفہ ہے جب ڈاکٹر کے مردہ قرار دینے کے بعد ایک شخص کو دفنانے کے لیے لے کر جا رہے تھے تو اسے اچانک ہوش آگیا۔ وہ بولا ’’مجھے کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ لوگوں نے بتایا: ’’تمہیں دفن کرنے کے لیے لے جارہے ہیں‘‘۔ وہ شخص بولا ’’لیکن میں تو زندہ ہوں‘‘۔ ’’چپ رہو کیا تم ڈاکٹر سے زیادہ سمجھدار ہو‘‘۔ لوگوں میں سے ایک بولا۔ اکانومسٹ کو کون سمجھائے کہ ججوں کو انصاف ہی کے نہیں تحریک انصاف کے تقاضے بھی پورا کرنا ہوتے ہیں۔ جہاں عدالت عظمی کے چیف جسٹس انصاف دینے سے زیادہ ڈیم بنانے کو باعث عزت باور کرتے ہوں وہاں ایسے ہی فیصلے ممکن ہیں۔
دعویٰ کرکے پیچھے ہٹ جانے یا میدان چھوڑ جانے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: ’’بکری ہوگیا ہے۔‘‘ نواز شریف کے بارے میں بھی ایسا ہی گمان تھا کہ: ’’انسداد نواز مہم‘‘ کی تاب نہ لاسکیں گے لیکن نااہلی کے فیصلے کے بعد اسلام آباد سے روڈ ٹو لاہور اور اب لندن سے فلائی ٹو لاہور انہوں نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔ بادشاہ گروں کا ان سے وہی مطالبہ تھا جو ہم نے ایک رکشے کے پیچھے لکھا دیکھا تھا
عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلانا چھوڑ دو
بریک بے وفا ہے تو رکشہ چلانا چھوڑ دو
نوازشریف نہ عاشقی چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ گاڑی چلانے سے کنارہ کش ہونے پر۔ انہیں 25جولائی سے پہلے ضمانت پر رہائی مل جاتی تو الیکشن کی کچھ نہ کچھ عزت رہ جاتی لیکن صاحب اس ملک میں راؤ انوار کی ضمانت ہوسکتی ہے، عمران خان، اسد عمر اور خرم نواز کو عدالت میں پیشی سے استثنی مل سکتا ہے لیکن نواز شریف کی نہ ضمانت ہوسکتی ہے اور نہ نوازشریف اور شہباز شریف کو عدالتوں میں حاضری سے استثنی مل سکتا ہے۔ عمران خان عدالت نہ جائیں تو بھی گھر کا معاملہ ہے الیکشن کمیشن اور نیب میں پیش نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں، گالم گلوچ کیس میں الیکشن کمیشن کے سامنے حاضر نہ ہوں تو بھی عدالتیں بے مزہ نہیں ہوتیں۔ ہمارے نظام عدل کی یہ منفرد خوبی ہے کہ نوازشریف اور زرداری جیل جاسکتے ہیں لیکن پرویز مشرف نہیں۔ اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے۔
عدلیہ نے عدل کو تماشا بنادیا
اِس سے گزر گئے کبھی اُس سے گزر گئے
پروشیا کے بادشاہ فریڈرک دی گریٹ نے ایک مرتبہ فوج کے ایک چھوٹے افسر کو امتیازی نشان عطا کیا تو اس نے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا: ’’جہاں پناہ! میں خود کو اس کا حق دار نہیں سمجھتا، یہ تمغا میں صرف میدان جنگ ہی میں وصول کرسکتا ہوں‘‘۔ فوجی افسر کو یہ توقع تھی کہ بادشاہ اس کے جواب سے خوش ہوکر مزید انعام و اکرام سے نوازے گا یا کم ازکم تحسین کے کلمات تو ضرور کہے گا لیکن توقع کے برخلاف بادشاہ نے کہا: ’’عجیب احمق آدمی ہو، کیا تمہاری خاطر میں جنگ چھیڑ دوں؟‘‘ بادشاہ فریڈرک تو جنگ نہ چھیڑ سکا لیکن ہمارے حقیقی بادشاہوں نے ایک شخص کی کامیابی کے لیے واقعی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس جنگ میں وہ تباہی مچی ہے کہ ڈالر ایک سو تیس سے اوپر چلا گیا۔ روپیا دنیا کی سب سے بے توقیر کرنسی قرار دیے جانے سے بس ایک ہی درجہ نیچے ہے۔ مہنگائی کا ڈائنو سار محلوں اور قصبوں میں چنگھاڑتا پھررہا ہے۔ ملک یک دم سیکڑوں ارب روپے کا مزید مقروض ہوگیا۔ لیکن کسے پروا ہے۔ انسداد نوازشریف مہم کے تقاضے پورے ہونے چا ہییں۔ تحریک انصاف کے سوا تمام بڑی جماعتیں سیاسی انجینئرنگ کی شکایت کررہی ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل، اے این پی، بی این پی، ایم کیو ایم۔
انسداد نواز مہم نے اتنے بحران پیدا کردیے ہیں کہ ہر بلا سوئے خانہ انوری رواں ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں الیکشن کے بعدن لیگ سے ایک مزید فارورڈ بلاک نکالا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ن لیگ اتنی سیٹیں نکال لے جائے گی مزید ایک فارورڈ بلاک بنایا جاسکے گا۔ بلاول زرداری کہتے ہیں کہ: ’’نیا آئی جے آئی بنایا جارہا ہے‘‘۔ آج جن مشکلات سے نواز شریف گزر رہے ہیں آئی جے آئی کے زمانے میں ایسی ہی مشکلات سے محترمہ بے نظیر بھٹو گزرتی تھیں۔ جس طرح آج تحریک انصاف شاد کام ہے کبھی مسلم لیگ ن منزل مراد تھی۔ یہ زمانے کی گردش ہے۔ پرانی آئی جے آئی 1990 کے الیکشن سے پہلے بنوائی گئی تھی۔ پیدائش کے مراحل سے گزرتی نئی آئی جے آئی غالباً الیکشن کے بعد جلوے بکھیرے گی۔ پرانی آئی جے آئی اس وقت کے بادشاہ گروں نے پی پی کا راستہ روکنے کے لیے تشکیل دی تھی نئی ’’آئی جی آئی‘‘ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے بنائی جائے گی۔
صاحبو! کہنا یہ ہے کہ یہ نظام وہ زہریلا سانپ ہے جو پلٹ پلٹ کر حملہ کرتا ہے۔ فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک نے یکم جولائی کو ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ حالیہ الیکشن میں جو امیدوار حصہ لے رہے ہیں ان میں سے 209امیدوار سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کے 3.90 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ 1195 امیدوار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے 12.38 ملین روپے کے نادہندہ ہیں۔ یہ نظام کل بھی کرپٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کی سرپرستی کرتا تھا آج بھی کرپشن اور جرائم کے لیے مخصوص ہے بس چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ لوگ چہروں کے ایک سیٹ اپ اور ان کی ڈراما بازیوں سے اکتانے لگتے ہیں یا پھر پرانے چہرے کسی خوش فہمی کا شکار ہوکر مقابل آنے لگتے ہیں تو پرانے چہروں کو ایک طرف ان کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے تو دوسری طرف نئے کرداروں کے ساتھ شرطیہ نئی کاپی کے ساتھ ایک نیا ڈراما اسٹیج کردیا جاتا ہے۔ہمارے اور آپ کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ 25تاریخ کو ووٹ ڈالنے کی چند منٹ کی آزادی کے ساتھ لطف اندوز ہو لیجیے اس کے بعد آپ کا کسی بھی چیز سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ اپنی تقدیر کے ساتھ بھی نہیں۔