کیا یہ دوسرے افتخار چودھری ہیں

533

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وہ بات کہہ دی جو پاکستان بھر میں زبان زد عام ہے، گویا عوام کے ذہنوں میں موجود خیالات کو ایک مضبوط سند مل گئی۔ ہر معاملے میں لوگ یہی کہتے رہتے ہیں کہ بندوق والے چاہیں گے تو کام ہوگا۔ وہی بات جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہہ دی۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ خفیہ ایجنٹوں کے اہلکاروں نے ان کے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کی اور کہا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک ہرگز باہر نہیں آنے دینا۔ انہوں نے تو آئی ایس آئی کا نام بھی لیا، مرضی کے بنچ بنوانے کی بات کی اور کہا کہ میرے چیف جسٹس سے کہا گیا کہ الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا، شوکت عزیز کو بنچ میں مت شامل کرنا، مجھے کہا گیا کہ آپ ہماری مرضی کے مطابق فیصلے دیں گے تو نومبر تک نہیں ستمبر تک آپ کو چیف جسٹس بنادیں گے۔ جسٹس شوکت نے دعویٰ کیا کہ مجھے معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے، آج کے بعد میرے ساتھ کیا ہوگا یہ تو نہیں معلوم لیکن ضمیر کا سودا نہیں کروں گا۔ جسٹس شوکت عزیز کے خلاف ایک ریفرنس بھی زیر سماعت ہے ممکن ہے اس ریفرنس کے ذریعے انہیں دبانے کی کوشش کی جائے اور پاکستان میں تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اس وقت کے حالات تو یہ ہیں کہ جسٹس شوکت صدیقی لوگوں کے دلوں کی بات کرنے لگے ہیں اس لیے لوگ ان کی بات کو پسند بھی کررہے ہیں اور انہیں دوسرا افتخار چودھری بھی سمجھ رہے ہیں لیکن انہوں نے جو انکشافات کیے ہیں وہ درحقیقت انکشاف نہیں ہیں اگر افتخار چودھری والے معاملے کو دیکھیں تو بات اس وقت کھل گئی تھی کہ کون سی طاقت عدلیہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف ہی نے افتخار چودھری کو بلا کر دھمکایا تھا ان سے اس ملاقات میں استعفے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس سے انکار کردیا تھا پھر ساری بار ایسوسی ایشنیں اور سیاسی پارٹیاں ان کے پیچھے چل پڑیں یوں جنرل پرویز کے خلاف ایک فضا بن گئی لیکن بعد میں پتا چلا یا بتایا گیا کہ جنرل پرویز کے خلاف اس مہم کے پیچھے بھی بندوق والے تھے۔ ہوسکتا ہے کسی نے یہ دیکھ کر دعویٰ کردیا ہو کہ کامیابی تو افتخار چودھری کو مل ہی گئی ہے اس کا سہرا اپنے سر لے لیا جائے تو کیا قباحت ہے۔ اب اپنے وقت کے ہیرو افتخار چودھری کو بھی متنازع بنادیا گیا ہے۔ جسٹس شوکت جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ عدلیہ میں کیا چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جج بن کر زندگی گزار سکیں۔ جسٹس شوکت نے جسٹس منیر کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ ہر کچھ عرصے بعد پاکستان میں جسٹس منیر کا کردار زندہ ہوجاتا ہے اور آج اعلیٰ عدلیہ میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ انہوں نے صحافت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ ویسے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں میڈیا والے گھٹنے نہ ٹیکتے تو ان کے گھٹنے سلامت رہنے کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ البتہ میڈیا مالکان کی جیبیں خوب گرم کردی گئی ہیں، خوب خریدوفروخت کی گئی ہے۔ جسٹس شوکت نے عدلیہ پر بندوق والوں کے کنٹرول کی جو بات کی ہے اس کا اظہار تو آج کل ہونے والے فیصلوں اور فیصلوں کے وقت سے ہورہا ہے۔ تازہ ترین واقعے میں ایفی ڈرین کیس میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ اس فیصلے پر تو عدالت میں بحث ہوسکتی ہے اور اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ یہ مقدمہ 2012ء سے زیر سماعت تھا، 2013ء میں اس کا فیصلہ نہیں ہوا، 6 سال سے لٹکا ہوا تھا لیکن عین انتخابات کے موقع پر 2018ء میں اس کا فیصلہ کیا گیا، 2 ماہ قبل بھی یہ کام ہوسکتا تھا، کیا وجہ ہے کہ انتخابات سے تین روز قبل یہ فیصلہ کیا گیا۔ عدالتوں اور مختلف عدالتی اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو فیصلے ہورہے ہیں اتفاق سے ان میں سے بیش تر مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہورہے ہیں۔ ممکن ہے یہ فیصلے درست ہوں لیکن اس وقت ایک فضا بنی ہوئی ہے کہ سارے فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں۔ نتیجہ بھی مسلم لیگ (ن) کے خلاف آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پورے ملک میں صرف مسلم لیگ (ن) بدعنوانوں کا گروہ ہے۔ آج کل جو لوگ پی ٹی آئی میں ہیں وہ 2002ء سے اب تک مختلف پارٹیوں سے سفر کرتے ہوئے اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ یقیناًانہیں بھی کسی بندوق والے نے بھیجا ہوگا۔ جنرل شجاع پاشا کا نام تو سب کے سامنے ہے، لہٰذا پورے ملک کے نظام میں بندوق کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اب اتنا وقت گزر چکا ہے سول سے فوجی پھر فوجی سے سول اور پھر فوجی اور سول کے کھیل کے بعد پس پردہ ہدایت کاری کا کھیل چل رہا ہے۔ قوم کی سمجھ میں آچکا ہے لیکن بندوق والوں کو بھی اب سمجھ لینا چاہیے ان کی مرضی کی حکومتیں تو بنتی رہتی ہیں لیکن ملک کا کیا حال ہورہا ہے، پروپیگنڈا کرکے سیاستدانوں کے خلاف تو یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ وہ ملک کو لوٹ کر کھا گئے، لیکن کیا صرف سیاستدان ملک کو تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں؟ پاکستان کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ اسے باہر سے نہیں اندر سے خطرات ہیں تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ بھی بتادیا کہ ملک کو اندر سے خطرات کہاں سے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز ریفرنس کے نتیجے میں نااہل قرار دیے جاسکتے ہیں اور نوٹس لیا جاچکا ہے لیکن اس سے کیا ہوگا؟ کیا پاکستان محفوظ ہوجائے گا، اگر اب بھی حساب نہیں کیا گیا اور زبردستی ملک کو اپنے مسلط کردہ لوگوں کے ذریعے اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش جاری رکھی تو نتائج کی ذمے داری سیاستدانوں پر نہ ڈالی جائے۔