نواز شریف کے لیے ایک سبق

316

۔18جولائی 2018 ء کونیلسن منڈیلا کی سوویں سالگرہ منائی گئی‘ پاکستان اور دنیا بھر میں نیلسن منڈیلا کے لیے بہت عزت ہے۔ 27 برس اپنے وطن جنوبی افریقا کے زندانوں کی نذر رہے۔ 5 دسمبر 2013ء کو دنیا سے رخصت ہوئے، دنیا انہیں حریت پسند رہنماء کے طور پر یاد رکھے گی۔
جامعہ الملک سعود میں انگریزی کا استاد بھی حریت پسند تھا انہیں سفید فام جج نے سزا دی اسے ایک ایسی کوٹھڑی میں جگہ دی گئی جہاں پہلے سے ایک مکین موجود تھا۔ وہ نیلسن منڈیلا تھا جو عمر قید کاٹ رہا تھا دونوں حریت پسند مل بیٹھے۔ ایلفرڈ شطرنج کا ماہر تھا نیلسن منڈیلا نے کچھ چالیں اس سے سیکھیں مگر نیلسن بہت اچھا مکہ باز تھا اس نے اپنے ساتھی کو مکہ بازی کے رموز سکھا دیے ایلفرڈ سے کسی نے پوچھا کہ نیلسن منڈیلا کی شخصیت کا کون سا پہلو سب سے زیادہ متاثر کن تھا الفریڈ کے خیال میں نیلسن کی شخصیت کا ہر پہلو بے مثال تھا تاہم وہ کبھی ہار نہیں مانتا تھا یہی بات زیادہ پسند آئی نیلسن کے بارے میں مشہور تھا کہ جب وہ شطرنج کھیلتا تو شطرنج کی بازیاں کبھی بہت طویل ہوجاتیں تو کھیل روک دیتا کہ کل یہیں سے جاری رکھیں گے یوں پورے 2برس اس نے مہرے نہ اٹھانے دیے ایک ہی بساط بچھی رہی۔‘‘ دو سال کے بعد الفریڈ تو جیل سے بھاگ گیا لیکن نیلسن منڈیلا نہیں بھاگا۔ اب سوال یہ ہے کہ مشرف دور میں معاہدہ کرکے سعودی عرب کون گیا تھا؟ اور پھر نواز شریف کی واپسی پر انہیں نیلسن منڈیلا کیوں کہا گیا؟ نیلسن منڈیلا بننے کے لیے زندگی جیل میں گزارنا پڑتی ہے تب کہیں جاکر دنیا منڈیلا کو پہچانتی ہے۔
نیلسن منڈیلا کو 1992ء میں نشان پاکستان دیا گیا، 1993ء میں انہیں امن کا نوبل انعام ملا، 1994ء سے 1999ء تک اپنے ملک کے صدر رہنے والے نیلسن منڈیلا کو اس کے سیاہ فام ہم وطن احترام سے مڈیبا یعنی بابائے قوم کہا کرتے تھے۔ اپنے شباب کی 3 دہائیاں زندان کی تاریکیوں اور استخواں شکن جدوجہد کی نذر کرنے کے باوجود نیلسن منڈیلا اپنے وطن پر سے استعمار کا چنگل نہ ہٹا سکا۔ 16ویں صدی کے اواخر اور 18ویں صدی کے ابتدائی برسوں تک سورج کے طلوع و غروب کے سایوں میں تاج برطانیہ کے زیر نگین ریاستوں کو لاتے رہے۔ 1913ء میں حال یہ تھا کہ کرہ ارض پر برطانیہ عظیم ترین سلطنت تھی۔ اس کے زیر اقتدار 41 کروڑ 20 لاکھ کی آبادی تھی جب کہ 1920ء تک اس کے مفتوحہ علاقوں کا رقبہ 3 کروڑ 35 لاکھ مربع کیلو میٹر تک ہوچکا تھا۔ اس وقت زمین کے 24 فی صد پر برطانوی پرچم لہراتا تھا۔ جنوبی افریقا کی مختلف متحارب ریاستوں کو برطانیہ نے 1909ء میں متحد کیا اور اسے تاج برطانیہ کا محکوم بنادیا۔ سونا، ہیرے اور دیگر معدنیات بلا توقف اور بلا شرکت غیرے عازم لندن ہوتے رہے۔
سفید فام نسل پرست جنوبی افریقی حاکم اپنی نگرانی میں وسطی افریقی جنگلوں میں آباد سیاہ فاموں کو پابند سلاسل کرکے یورپ بھجواتے۔ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد صرف اپنے سیاہ فام ہموطنوں کو مقام انسانیت دلانے کے لیے تھی وطن سے پیسہ باہر لے جانے کا کبھی تصور نہیں کیا تھا جیل میں رہا تو شان سے رہا‘ کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لایا 27 برس کے بعد جب اس پر در زنداں کھلا تو اسے بہت حد تک کامیابی مل چکی تھی لیکن استعمار کے بھی عجب روپ ہیں۔ نیلسن منڈیلا کامیاب بھی ہوا تھا اور نہیں بھی۔ آج بھی آزاد جنوبی افریقی شہروں میں سفید فام اپنے الگ بسائی بستیوں میں رہتے ہیں۔ سیاہ فاموں کے لیے انتہائی غلیظ آبادیاں ہیں۔ نوکریوں کے لیے سفید فام کو سیاہ فام پر برتری حاصل ہے، سفید فام آبادی کے لیے خصوصی مدارس قائم ہیں گویا استعمار آج بھی غالب ہے انسانیت بلک رہی ہے برصغیر پر ہی نظر ڈالتے ہیں تو پاکستان بھی نظر میں آتا ہے۔ 20 جون 1858ء کو گوالیار میں آخری مجاہدین کی پلاٹون کی شکست کے بعد اس جنگ ختم ہوتی ہے تو 81 سالہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو برطانوی میجر ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا اور رنگون میں ایک مختصر سی کوٹھڑی اس کا مقدر بنادی گئی۔ ایک کمبل، ایک حقہ اور کتنا ہے جیل میں اس کا کل سرمایہ‘ کوئی مشقتی نہیں تھا اور کوئی وی آئی پی ملاقاتی نہیں اس وقت کے ٹوانے، چٹھے، چیمے، قریشی، قزلباش، جتوئی سب تاریخ کی کتابوں کے مطابق مجاہدین کا خون بہانے میں سفید فام آقاؤں کی مدد کرتے رہے اور اس کے عوض نوازے جاتے رہے، آج یہی لوگ الیکٹ ایبل بنے ہوئے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں کہ ملک کہاں جارہا ہے‘ ہمارے مسائل کیا ہیں‘ بھارت امریکا گٹھ جوڑ ہمارے لیے کیا مسائل کھڑے کر چکا ہے‘ سرحدیں کتنی غیر محفوظ ہیں انہیں کوئی علم نہیں‘ البتہ انہیں ہر داؤ پیچ کا علم ہے جس سے یہ پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں‘ یہ ہر جماعت کے ساتھ ہیں اور کسی کے بھی ساتھ نہیں ہیں‘ ان کا سایہ بھی انہیں ہر وقت ملامت کرتا رہتا ہے مگر مجال ہے کہ کبھی انہوں نے دھیان دیا ہو‘ نواز شریف بھی بہت افسردہ ہیں کہ ان سے ان کے یہ ہیرے چھن گئے ہیں‘ یہ ہیرے ماضی میں کسی کے کام نہیں آئے اور آج بھی یہ کسی کے کام آنے کے قابل نہیں لیکن یہ بات پاکستان کی اشرافیہ کے نیلسن منڈیلا کو کون سمجھائے کہ ان کے جانے سے افسردہ کیوں ہو؟ مسلمان کیوں نہیں بنتے‘ پاکستانی کیوں نہیں بنتے‘ دونوں کا مشترکہ نکتہ یہی کہ پاکستان ہی مقدم ہے اور اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں یہی وہ قابل اعتماد ہتھیار ہے جس کی مدد سے بھارت امریکا گٹھ جوڑ کا مقابلہ ہوسکتا ہے اگر اس ملک کی سیاسی قیادت پاکستانی بن جائے تو دنیا میں کوئی طاقت ہماری سرحدوں کی جانب بری نظروں سے نہیں دیکھ سکتی۔ امریکا پر انحصار کرنے والی سیاسی قیادت ہمیں نہیں چاہیے اور اپنا سرمایہ بیرون ملک لے جانے والی قیادت تو بالکل بھی نہیں چاہیے۔