بڑھتی فضائی آلودگی دماغی امراض کی بڑی وجہ ہے‘ ڈاکٹر عبدالمالک

392

انٹرویو: ابو سعدی

سوال: جوں جوں معاشرہ ترقی کررہا ہے، نت نئی ایجادات بھی زندگی کو سہل بنانے میں مصروف ہیں تاہم اسی دوران دماغی و ذہنی مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آپ بحیثیت ڈاکٹر اس کو کس طرح سے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ذہنی ودماغی مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دماغی امراض کو نیورولوجی ٹریٹمنٹ کہتے ہیں۔ نیورولوجی میں یہ دماغی اعصابی بیماری ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت وجوہات مختلف ہیں۔ ہمارے یہاں فالج اور دیگر دماغی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، اور اس حوالے سے زیادہ آگاہی اور بہت زیادہ توجہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بیماریوں کے متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی سے سادگی ختم ہوگئی ہے۔ ہم قدرت سے دور ہورہے ہیں۔ ہماری غذا سادہ نہیں رہی، اس کے علاوہ ذہنی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں، آب و ہوا ٹھیک نہیں، آلودگی ہے، انسان دوست ماحول دستیاب نہیں ہے۔ یہ سب اس کی وجوہات ہیں۔ معاشرے کی جو ترتیب بنتی ہے یعنی ترتیب میں زندگی کا رہنا سہنا ، غذا، ورزش اور ماحولیات ان تمام میں اتنی زیادہ تبدیلیاں اور اتنی زیادہ بے قاعدگیاں آ چکی ہیں کہ بیماریوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اگر ہم بات کریں 2018ء کی تو عالمی یوم دماغ جو ہر سال 21 جولائی کو منایا جاتا ہے، اس مرتبہ فضا میں آلودگی اس کا موضوع ہے۔ اس سے فضائی آلودگی کے نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ فضائی آلودگی کو دماغی امراض کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا رہنے سہنے کا انداز، طرز زندگی، غذا ، اس کے ساتھ آب و ہوا کا ٹھیک نہ ہونا ،ماحول کا ٹھیک نہ ہونا اور اعصابی تنائو۔ یہ سب اپنا اثر رکھتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایک تو معاشرتی تنائو موجود ہے، اس کے بعد جب آپ سڑک پر نکلیں تو ٹریفک کے مسائل ہیں۔ ایسے میں ایک نارمل انسان بھی، جسے بظاہر کوئی بیماری نہیں ہے لیکن وہ بھی مستقل ایک تنائو والی کیفیت میں اپنی روز مرہ کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔اب تو یہ تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ بہت سے لوگ دماغی مریض ہیں۔ اگر ان کو شوگر یا بلڈ پریشر نہیں بھی ہے تب بھی تنائو میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دماغی مرض کے ہونے کے لیے کوئی ایک وجہ بھی اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن اس وقت ایک نہیں 3سے 4 بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث دماغی امراض اور خاص طور پر ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سوال:آپ نے فضائی آلودگی کا ذکر کیا، یہ کس طرح دماغی امراض میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ؟
ڈاکٹر عبدالمالک :یہ جو آپ کی گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، پانی کی حوالے سے تمام متعلقہ سیکٹرز، ہمارے جسم کے پورے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ ہم نے تو ابھی تک یہی سنا،سمجھا اور عام طور پر دیکھتے ہیں کہ اگر پانی ٹھیک نہیں ہے تو ڈائریا ہوجائے گا اور اسی طرح کی چیزیں ہوجائیں گی مگر اب ایسا نہیں ہے۔ یہ جو آلودگی اور جو مختلف کیمیکلز جسم کے اندر جاتے ہیں، مختلف عوامل جو فضا میں موجود ہیں کیونکہ ہمارے یہاں ایسا نظام تو ہے نہیں کہ آلودگی کی حوالے سے انسدادی اقدامات کیے جائیں۔ گاڑیوں کے ذریعے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے بچاؤ کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ جب یہ عوامل پورے ماحول کو خراب کریں گے تو جو سانس اندر جارہی ہے وہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ ، آکسیجن ہی نہیں، دیگر مضر ذرات سمیت گیس بھی اس کے ساتھ اندر جارہی ہیں یہ جو اور گیس اندر جارہی ہے اس سے خون کی صفائی اس طرح نہیں ہورہی جس طرح کہ باقاعدہ ایک اچھے ماحول میں ہونی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ وہی سپلائی ڈرینج پارٹس کو ہوتی ہے اور وہی سپلائی باڈی پارٹس کو ہوتی ہے ، بنیادی طور پر پورا جسم خون سپلائی کرتا ہے۔ پورا جسم جو ہے وہ زندگی تو آکسیجن ہی ہے ناں؟ وہ جب صاف نہیں ہوگی ، خون کی ٹھیک طرح سے ٹیوننگ نہیں ہوگی۔ اس کے اثرات سست ضرور ہیں ایسا نہیں کہ یکدم ہوجائیں، لیکن اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جہاں اس کے فوری اثرات پانی صاف نہ ہونے کی وجہ سے ڈائریا کی صورت میں ہوتے ہیں ، جو افراد کو امراض تنفس کے شکار ہیں، ان کو دمے کی بیماری ہوجاتی ہے ۔ دماغی امراض بھی آہستہ ، آہستہ کرکے بہرحال نشونما پاتے ہیں۔
سوال: اس کا مطلب ہے دماغی امراض میں مبتلا شخص کے دیگر جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: جی بالکل …!
سوال ؟ اس حوالے سے مزید تفصیل سے بتائیں:
ڈاکٹر عبدالمالک: دماغی مرض میں مبتلا شخص سب سے زیادہ فالج کا شکار ہوتاہے۔ فرض کرلیں اس کو شوگر نہیں ہے ، بلڈ پریشر نہیں ہے ، مٹاپا نہیں ہے لیکن وہ دماغی تناو میں ہے جس کی وجہ آلو دگی ہے ، جو گرد غبار ہے ،جوماحول ہے اس کے نتیجے میں جو کیمیکل فیکٹر پیدا ہوتے ہیں جس سے فالج ہونے کے امکانات بہرحال بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عمومی عناصر ہیں، لیکن اگر فرض کرلیں کہ ایک آدمی کو شوگر بھی ہے ، بلڈ پریشر بھی ہے تو اس کو فالج ہونے کے یا دماغی امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات تقریباً 10 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جس کو فالج ہوگیا وہ چلنے پھرنے سے گیا، اس کا مالی بوجھ بڑھ جائے گا جس سے خاندان پر ایک بوجھ ہوجائے گا۔ ڈپریشن ہوجائے گا یعنی فالج تو پیچھے رہ جائے گا دیگر عوامل اس کے سامنے آجائیں گے ۔
سوال:ڈاکٹر صاحب آپ کی گفتگو سے لگتا ہے کہ دماغ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی جسم کا کنٹرول روم ہے اگر یہ خراب ہوجائے تو باقی چیزیں خود بخود خراب ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ دماغ کس طرح فنکشن کرتا ہے ؟یہ کس طرح خراب ہوتا ہے ذرا تفصیل سے سمجھائیں :
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں اس کو دو حصوں میں تقسیم کیجیے۔ ایک ہیں ذہنی امراض جن کو نفسیاتی امراض بھی کہتے ہیں او رایک ہیں دماغی امراض جن کو اعصابی خرابی کی شکایت (neurological disorder) کہتے ہیں یعنی ایک دماغی ڈس آرڈر (Mental Disorder) ہے اور ایک نیوورولوجی Neurology disorderہے۔
اگر ہم دماغی امراض کی بات کریں تو اس میں دماغ ہے جس کے باقاعدہ فنکشنز ہیں۔ جس طرح آپ نے کہا پورا جسم دماغ کنٹرول کرتا ہے اب اس کے جو مختلف اجزا ہیں ۔کوئی ہاتھ پیر کی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے، کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کوکنٹرول کرتا ہے، کوئی یادداشت کو کنٹرول کرتا ہے۔ سانس لینے ، چلنے ، سونگھنے ، دیکھنے اوربولنے کے عوامل دماغ سے ہی کنٹرول ہوتے ہیں ۔ دماغ کے مختلف سینٹرز ہیں ،Intellectual کام دماغ کا ایک حصہ کرتا ہے، ایک میموری کنٹرول کرتا ہے،ایک میموری زیادہ بہتر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے جسے کہتے ہیں پرانی یادداشت جیسے کب پیدا ہوا تھا ؟، کہاں رہتا ہے؟ میرے آبا و اجداد کیا ہیں؟ اسے پوری طرح یاد ہے تو دماغ کے اتنے اجزا Component پوری طرح کنٹرول کرتا ہے ،اسی طرح پورے سسٹم سے بلڈ سپلائی دے رہا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اگر نیورولوجی ڈس آرڈرمیں جس Componentکا حصہ جو چیز کنٹرول کررہا ہے اس میں اگر تبدیلی واقع ہوتی ہے، اس طرح کی بیماری ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے، اس کی اگر میں مثال دوں جیسے فالج ہے، اگر فالج خدانخواستہ دماغ کے اگلے سینٹرل لاک کے حصے میں ہوا ہے اور بلڈ سپلائی درست طریقے سے نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے تو آپ کے جو ایگزیکٹو فنکشنز ہیں یا سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت ہے وہ مفقود ہوجاتی ہے، لیکن اگر ایسی جگہ ہوا ہے جو نظر کو کنٹرول کرتا ہے باقی جگہ نظر نہیں آتی ہیں تو دماغ کے اندر مختلف جو پارٹس باڈی کو کنٹرول کرتے ہیں وہاں پر کوئی بیماری ، کوئی پرابلم یا کوئی چوٹ یا تبدیلی کے نتیجے میں جو عوامل ہوتے ہیں وہ کیمیکل کے ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہے۔ مثلاً رعشہ کی بیماری ہے ، ایک نارمل ہاتھ جو ہے وہ رعشہ کے طور پر شروع ہوجاتا ہے اب اس کے عوامل دیگر بھی ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر دماغ جو ہے اس کے بہت سارے اجزا ہیں اور ہر Component جو مختلف فنکشن ادا کرتا ہے اگر اس میں کوئی رکاوٹ آجاتی ہے تو اس کے نتیجے میں وہ بیماری ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔
سوال :۔ مرگی کی بیماری کیا ہے؟ ایک شخص اس بیماری کا شکار کیسے ہوتا ہے اوراس کا علاج کیا ہے اور یہ جو چپل سونگھا کر مرض ٹھیک کیا جاتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالمالک: بڑا اہم سوال ہے کیونکہ مرگی کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت بڑی تعداد میں توہمات پائی جاتی ہیں۔ دیکھیں مرگی ایک دماغی مرض ہے۔ سادہ الفاظ میں عوام کی آگاہی کے لیے جو دماغ کے سیل ہوتے ہیں ان کے درمیان ارتعاش سے آپس میں ٹکرائو شروع ہوجاتا ہے۔ اب اس کے نتیجے میں جس حصے میں ٹکرائو شروع ہوتا ہے وہ دماغ کا حصہ جو باڈی سے کنٹرول کررہا ہوتا ہے وہاں پر Involuntary یا غیر ارادی محرکات شروع ہو جاتے ہیں تو بنیادی طور پر دماغ کے خلیے جس کو نیوران (Neuron )کہتے ہیں اس کے ڈس فنکشن کے نتیجے میں جس کو ہم مرگی کہتے ہیں وہ اثر انداز ہوجاتا ہے۔ تو جس حصے میں بھی ہوگا اگر فرض کریں ہاتھ کنٹرول کرنے والے حصے میں ہورہا ہے دماغ میں تو وہاں پر ہاتھ میں موومنٹ شروع ہوجاتی ہے،اگر ہاتھ پائوں دونوں میں ہورہا ہے تو دونوں میں شروع ہوجاتی ہیں۔ مرگی کی پچاس سے زائد اقسام ہیں۔ بچوں پر بھی اثر ہوتا ہے کہ وہ گم صم رہ جاتے ہیں ۔
سوال: چپل سے علاج کیے جانے پر آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر عبدالمالک: بنیادی طور پر چپل، جادو، ٹونہ، یہ صرف توہمات ہیں۔ بنیادی طو رپر دیکھیں تو یہ ایک خاص دورانیے میں اثر انداز ہوتا ہے۔ سیکنڈز میں ہوتا ہے عام طور پر ، اگر Continueچل رہا ہے تو اسے تو ہم ایمرجنسی میں ڈیکلیئر کردیتے ہیں عموماًیہ سیکنڈز میں صحیح ہوجاتا ہے ارتعاش خود بخودصحیح ہوجاتا ہے اگر دوائی دیں تو پھر بالکل نہیں ہوگا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چپل سونگھانے سے یا چمڑا سونگھانے سے صحیح ہوگیا یہ بالکل غلط ہے ۔
سوال: بچوں میں دماغی امراض بڑھتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں بیماریاں تو پہلے بھی تھیں اب بھی ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس شعبے میں لوگ آرہے ہیں۔ پہلے تو پاکستان میں نیورولوجسٹ بہت کم تھے ،لیکن اب بچوں کے ماہر نیورولوجسٹ آرہے ہیں۔تو اس کے نتیجے میں ظاہری بات ہے علاج کے لیے ماحول بہتر ہوگا اور اس کے مقابلے میں اعداد و شمار بھی بہتر ہوں گے۔ پہلے اس میں لوگ ہوتے ہی نہیں تھے اس لیے بہت زیادہ آگاہی بھی نہیں تھی اب لوگ ہوتے ہیں اور اس میں ٹرینڈ بھی ہورہے ہیں۔ لوگ اس پر تحقیقات بھی کررہے ہیں تو اس وجہ سے پتا چل رہا ہے کہ بچوں کے اندر بھی دماغی مرض ہے۔
سوال: بچوں میں اس بیماری کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمالک: جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اس کی افزائش ہورہی ہوتی ہے تو اسی وقت اس کو موروثی بیماریاں لگ جاتی ہیں اور جینیاتی سائنس میں معاملہ چلا جاتا ہے۔ بعض لوگ ہوتے ہیں جن کی درست طور پر ڈلیوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری دماغ کی طرف جانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک تو وہ ہے جو پیٹ کے اندر ہوتی ہے اور دوسرا دوران ڈلیوری ہوجاتی ہے اور ایک وہ ہوتا ہے خدانخواستہ بچہ نارمل پیدا ہوا ، سب کچھ نارمل تھا باقائدہ اورمناسب ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دماغی مرض ہوگیا۔ مطلب سمجھ لیں کہ اپاہج کردینے والی بیماری ہے۔ گردن توڑ بخار اگر خدانخواستہ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں ہوتا ہے ، اس لیے کہتے ہیں کہ حمل کے جو ابتدائی دن ہوتے ہیں اس کے دوران متواتر گائناکولوجسٹ سے رابطے میں رہیں تاکہ ابتدائی طور پر ہی چیزیںٹھیک ہوں۔ گائنا کولوجسٹ کی نگرانی میں ہی آپ کے تمام حمل کے دن گزریں اور ماہر امراض نسواں ہی سے اس کا علاج ممکن ہے ۔ غیر متوقع (وقت سے پہلے) جو ڈیلیوری ہوتی ہے یہ بھی دماغی امراض کا باعث بنتی ہے۔ بچہ جب پیدا ہوجاتا ہے تو لامحالہ ویکسی نیشن باقاعدہ ہوں، انفیکشن پر کنٹرول رہے تو یہ وہ وجوہات ہیں جس سے بچوں میں دماغی امراض کا زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔
سوال: شہری علاقوں میں دماغی امراض کے مریض زیادہ پیدا ہورہے ہیں، یا دیہی علاقوں میں؟ اس پر آپ کا کیا تجربہ ہے ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں ایس او ایس یا پاپولیشن تو یہاں ہے نہیں جس کی بنیاد پر ہم یہ کہیں کہ شہری علاقوں میں یہ تعداد زیادہ ہے اور دیہی علاقوں میں کم لیکن کیونکہ نیورولوجسٹ سارے کے سارے مرکزی شہروں میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی ہیں لیکن نیورولوجسٹ کی اکثریت شہروں ہی میں ہے،تو اس کے نتیجے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شہروں میں ہی آگاہی بھی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی اکثریتی آبادی دیہی ہے وہاں پر بھی کم لیکن نیورولوجسٹ بہرحال موجود ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ دیہی آبادی میں زیادہ ہیں ۔
سوال: اس کا مطلب ہے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ پاکستان میں دماغی امراض کی صورتحال کیا ہے؟ کچھ اعدا دو شمار کی روشنی میں بتائیں تو آپ کے پاس کوئی باقاعدہ جواب نہیں ہوسکتا؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں پوری دنیا میں 6.5فیصد یا 6.7 فیصد نیورولوجی ڈس آرڈر ہیں۔ یہ ترقی یافتہ ملکوںمیں شاید کم ہیں۔ پاکستان کے اندر ہم نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ اعداد وشمارمکمل نہیں ہیں۔ لیکن مختلف ممالک کے ہمارے پاس اعداد و شمار موجود ہیں۔ جس طرح میں نے ذکر کیا اقتصادی بیماری Economic Diseases عام ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں صارف کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی سوسائٹی میں موجود ہے۔ (باقی صفحہ 09پر)
ایک لاکھ کی آبادی ہے تو تقریباڈھائی سو لوگوں کو تو فالج ہوتا ہے ایک لاکھ میں سے تقریبا ساڑھے 3 سے 4 لاکھ مریض پاکستان میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اسی طرح تقریباًایک فیصد آبادی کو مرگی کی بیماری ہے، لیکن بچوں میں یہ تعداد 2فیصد سے زیادہ ہے۔15فیصد کی آبادی کو سر درد کی بیماری ہے ، درد کی دوائوں کے نتیجے میں سردرد اور بڑھ جاتا ہے۔
سوال:۔ ہر شخص یا ہر دوسرا کبھی نہ کبھی سر کے درد کا شکار ہوتا ہے بعض لوگ تو مستقل درد سر میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ اس کا علاج کیاہے؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں سردرد کو دو بڑے حصوں میں آپ تقسیم کرلیں۔ ایک وہ جو سیکنڈری درد ہے اس کو ہم کہتے ہیں اچانک سے ہوا، اتفاقی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہ مریض کو کبھی نہیں ہوا۔ اسے ہم تھوڑا خطرناک بھی کہتے ہیں۔ اس میں تشخیص ہوگی۔ ٹیسٹ کی ضرورت ہوگی ،کیونکہ ایک دم درد ہوا وہ بھی شدید ۔ یہ سیکنڈری ہے۔ پرائمری درد دنیا بھر میںہے۔ یہ ٹینشن ٹائپ درد ہوتا ہے۔ ضروری نہیں لوگوں کو ٹینشن ہو تو اس کو ٹینشن ٹائپ درد کہتے ہیں۔اس کو اردو میں درد شقیقہ کہتے ہیں یا عرف عام میں آدھے سرکا درد کہتے ہیں۔ یہ عموی طور پر لوگوں میں ہوتا ہے ۔پوری دنیا میں بہت عام درد ہے۔ پاکستان میں 10 سے 15فیصد کو یہ درد ہوتا ہے۔ جس کی خاص علامات ہیں۔ آدھے سر کا درد ہے اور یہ لازمی ہے کہ آپ کے آدھے سر میں درد نہیں ہوگا ۔ بعض اوقات جھنجھلاہٹ ہوتی ہے ، بعض اوقات تیز دھوپ ، تیز جھنجھلاہٹ بری لگتی ہے بعض اوقات آوازیں بھی کانوں کو بری لگتی ہیں ، بعض اوقات یہ سورج کی روشنی سے بڑھ جاتا ہے تو سردرد کی وجوہات بہت ہیں ۔مریض سے اس کی علامات پوچھنے کے نتیجے میں ہی اس کی تشخیص ہوسکتی ہے بہت زیادہ ٹیسٹ کرانے کی ،بہت زیادہ لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کی بہت زیادہ ضرورت نہیں پڑتی ۔
سوال:درد شقیقہ کی کچھ مزید وضاحت کردیں:
ڈاکٹر عبدالمالک: جس کو ہم کہیں کہ ہتھوڑے برس رہے ہیں یا بعض اوقات بھاری پن محسوس ہورہا ہو۔ مریض کو عام طور پر تنائو کی وجہ سے ، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے، ہر مریض کو نہیں، کسی خاص وجہ جس کو ہم پنیر ،دہی اور چاکلیٹ اس کی وجہ سے کہتے ہیں۔ لازمی نہیں کہ ہر مریض کو چاکلیٹ ، پنیر کی وجہ سے یا دہی کی وجہ ہی سے یہ درد ہورہا ہو لیکن عام طو رپر اسی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی خاص روشنی ، دھوپ یا تیز روشنی کی وجہ سے ہوتا ہے یا تیز آواز کی وجہ سے بھی ہوجاتا ہے تو ہر مریض کی علامات مختلف ہیں لیکن معمول کی علامات کہیں تو آدھے سرد کا درد یعنی سورج کی روشنی یا تیز روشنی ،تیز آواز ، الٹی کا محسوس ہونا یہ وہ علامات ہیں جو کہ درد شقیقہ کے بارے میں پتا دیتی ہیں۔
سوال:اس کا علاج کیاہے ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: اس سرد رر کے ہونے کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی یعنی مہینے میں ایک سے دو بار ہوجاتا ہے ہم مریض سے کہتے ہیں کہ یہ درد آپ کو نیند مکمل نہ کرنے کی وجہ سے ہورہا ہے یا تیز روشنی کی وجہ سے ہورہا ہے ۔اس کی اصل وجوہات معلوم کرنا معالج کا کام ہے تاکہ ہسٹری فیکٹر کا بٹن تو بند ہو یعنی جس وجہ سے اس کو سردرد ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ درد بڑھتا رہے گا تو سب سے پہلے وہ چیز جو درد کی وجہ بن رہی ہے وہ پہلے بند ہو۔ دوسری بات یہ کہ اگر بہت زیادہ ہورہاہے تو ہم دوانہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی سردرد شروع ہو تو آپ درد کی یہ والی دوا لے لیں۔ روٹین کی دوائیں روز لیں لیکن اگر کسی کو چار سے پانچ اٹیک ہر مہینے ہوں او راس کے نتیجے میں کچھ کوالٹی متاثر ہورہی ہو ،اس کی روز مرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہو تو پھر ہم اس کی باقاعدہ تشخیص کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکے جنہیں تیز دھوپ کی وجہ سے درد ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں سر ڈھانپ کر رکھیں تاکہ یہ آپ کو نہ ہو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب جیسے ہی میں کوئی خوشبو لگاتا ہوں تو سرمیں درد ہوجاتا ہے تو ہم کہتے ہیں خوشبو سے تھوڑا سا پرہیز کریں۔
سوال:۔ پاکستان میں دماغی امراض کے حوالے سے ریاستی سطح پر کیا کام ہورہا ہے ا وراس کام کو بحیثیت ڈاکٹر آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمالک: سرکاری اسپتالوں اور بڑے شہروں میں شعبہ نیورولوجی قائم ہے لیکن ایک ریاست کو جو طبی سہولیات اپنی عوام کو دینی چاہیے اور وہ ان کے بنیادی حقوق ہیں اس تسلی بخش سطح پر نہیں ہے۔ اس طرح نہیں ہے جیسے شوگر ،دل اور گردے کے امراض کے اسپتال ہیں۔دماغی امراض کے نہیں ہیں۔ پاکستان کی 20کروڑ کی آبادی میں چاروں صوبوں کے اندر کوئی ایک بھی مکمل اسپتال نہیں ۔کچھ جگہوں پر شعبے قائم ہیں۔
سوال:جس بڑی تعدا میں مریض ہیں، کیا اسی تناسب سے ڈاکٹر بھی علاج کے لیے موجود ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں 200 نیورولوجسٹ ہیں اس وقت پورے پاکستان میں اور 200 نیورولوجسٹ 21سال سے ہیں۔ پورے پاکستان میں اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں 156 میڈیکل کالجز ہیں اور صرف 22میڈیکل کالجز میں نیورولوجسٹ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔آپ یہ سمجھ لیں کہ اگر نیورولوجی کے حوالے سے بات کریں تو 210 ڈاکٹرز ہیں۔ ہم کہتے ہیں اس کو 21سے تقسیم کرو تو ریشو کیا بنا۔ ایک نیورولوجسٹ تقریباً 12لاکھ افراد کے لیے اکیلا ہے۔ بھارت میں اگر آپ دیکھیں تو ایک نیورولوجسٹ 10 لاکھ کے لیے ہے۔ و ہ تو بڑا ملک ہے ایک ارب سے زائد کی تو اس کی آبادی ہے اگر میں غلطی پہ نہیں ہوں تو بھارت ہمارے قریب ترین ہے ۔
سوال:اس حوالے سے نجی سطح پر بھی کیا کام ہورہا ہے اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیں ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: نجی سطح پر مینٹل امراض کے لیے رفاعی ادارے بنے ہیں۔ دماغی امراض میں اس حوالے سے تو سہولیات بہرحال نہیں ہیں ، عوامی سطح کی این جی اوز پر اگر ہم بات کریں تو رابعہ ہوم ہے جو ایس عبداللہ سعد کی زیر نگرانی چل رہا ہے جہاں اس حوالے سے علاج معالجہ بھی ہوتا ہے۔ پبلک سیکٹر کے علاوہ بات کررہا ہوں یعنی گورنمنٹ اسپتال کے علاوہ جہاں سستا ترین علاج جو ہے وہ ہے اس حوالے سے کئی ادارے ہیں پورے پاکستان میں جہاں پر نیورولوجی کی حوالے سے سستا ، معیاری قسم کا علاج ہوتا ہے اس حوالے سے۔ بہرحال بہت کمی ہے پبلک سیکٹر میں جتنا بڑا دبائو ہے اس حوالے سے اتنا ملتا نہیں ہے ۔
سوال: ایک ادارہ نارف(NARF) موجود ہے،جس کی خدمات کو اب 10 سال ہوگئے ہیں، اس کو بنانے کا خیال کس طرح آیا اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
ڈاکٹر مالک : دیکھیں نار ف (نیورولوجی اوئیرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن) کو بنانے کی بنیادی وجہ ہے دماغی امراض کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنا۔ کیونکہ معاشرے میں جب لوگ آگاہ ہوں گے تو پھر وہ علاج کے حوالے سے سوچیں گے ۔کیونکہ دماغی امراض یا نیورولوجی سطح پر آگاہی نہ ہونے کےبرابر تھی۔ ان کی تعداد کم ہیں اور جو ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہیں وہ کافی ٹرینڈ ہیں، وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ہم نے معاشرے کے اندر بطور نیورولوجسٹ یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں میں آگاہی پیدا کریں۔ دماغی امراض کے حوالے سے اور وہ لوگ جو ٹرینڈ ہورہے ہیں وہ تو ہوہی رہے ہیں، نیورولوجسٹ جو بنے ہیں اور جو فیملی کے حوالے سے ہیں ان کو مکمل ٹرینڈ کریں تاکہ علاج میں مدد ملے او ران کو بتانا ہے کہ یہ علامات ہیں اور اس کا علاج کس کے پاس بھیجنا ہے ، تاکہ وہ بفر کا کردار معاشرے میں پیدا ہوسکے تاکہ لوگ جو ہیں وہ کم از کم بہتر صحت کی سہولیات حاصل کرسکیں دماغی امراض کی حوالے سے۔ بنیادی طور پر نیورولوجی سے آگاہی اور ریسرچ فائونڈیشن کا جو مقصد ہے وہ معاشرے کے اندر نیورولوجی ڈس آرڈر دماغی امراض میں آگاہی پیدا کرنا ہے اور دماغی امراض کے حوالے سے ہمیں فیملیز کو ترغیب دینی ہےتاکہ وہ عام دماغی امراض جیسے فالج ،مرگی ، سردرد وغیرہ کو ٹریٹ کرکے جو نیورولوجسٹ سرجن ہے جو شہروں میں بیٹھے ہیں ان تک پہنچاسکیں تاکہ ان کو علامات ، درد کا دوا کا پتا ہو۔ مریض کو اس حوالے سے آگاہ کریں ۔
سوال: نارف کن کن شعبوں میں میں کام کررہا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمالک: بنیادی طور پر نارف (نیورولوجی اوئیرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن)سے ہمارا کام آگاہی فراہم کرنا ہے۔ آگاہی کے ساتھ ایجوکیشن ہے اور اس ساتھ ساتھ تحقیق میں مدد دینا، ریسرچ کے حوالے سے ، دماغی امراض کے حوالے سے تعلیم دینا ہے۔ دماغی امراض کے حوالے سے مختلف آگاہی ، سیمینار اور معاشرے میں میڈیا کے حوالے سے پروگرام کرنا تاکہ معاشرے کے مختلف طبقوں کو اس میں شامل کیا جاسکے۔ ہم نے پیشنٹ ویلفیئر کا کام بھی کیا تاکہ پیشنٹ کو بھی آگاہی اور مدد مل سکے۔ اب تقریباً ہمیں 10 سال ہوچکے ہیں آگاہی کے حوالے سے ہمارے پاس بہت ہی محدود وسائل ہیں۔ ہم کوئی بہت بڑی این جی او نہیں ہیں۔ ہم نے اب تک ان 10 برسوں میں 10 لاکھ سے زائد مختلف دماغی امراض کے حوالے سے آگاہی ہینڈبلز عوام میں تقسیم کیے ہیں۔ جس میں فالج کے بارے میں مرگی کے بارے میں ، سردرد کے بارے میں ملٹی پل پروسیس ایک بیماری ہے ،بھولنے کے بارے میں ،کمر درد ، اعصابی درد کے بارے میں اس حوالے سے مختلف کتابچے اور بروشر ہم نے چھاپ کر عوام تک پہنچائے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ جو آج کل کے جو سوشل میڈیا اور فیس بک کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں آگاہی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے اس کے ساتھ جو میڈیا کے دوسرے ٹولز ہیں جیسے یو ٹیوب ہے ، وڈیوز ہیں اس میں ہم نے جو سب سے اہم کام کیا ہے وہ ہے مختلف بیماریوں کے حوالے سے عوام میں آگاہی سیریز کا ہم نے آغاز کیا۔ مثال کے طور پر فالج ہے تو فالج کے حوالے سے ہم نے ماہرین سے جو اس کی عام چیزیں ہیں، علامات ہیںاس پر ہم نے آگاہی وڈیو پروگرام مرتب کیے۔ ان کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا، ہم نے اسے فیس بک پر اور اپنی ویب سائیٹ پر بھی اپ لوڈ کیا تاکہ لوگ اس بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ عوام کے جو سوالات ہوسکتے ہیں وہ ماہرین سے ہم نے لے کر ان کے جواب دیے۔
حافظہ ایک نعمت ہے یعنی بھولنے کے حوالے سے سردرد ، یا مختلف جو اعصابی درد ہیں ان کے حوالے سے ملٹی پل دماغی بیماریوں کے حوالے سے ، رعشہ کے حوالے سے،مرگی کی حوالے سے ہم نے اب تک ہم نے لائیو پروگرام جو پاکستان کے نامور ترین نیورولوجسٹ ہیں یا سائیکاٹرسٹ ہیں یا نیوروسرجن ہیں یا پھر Rehabilitation کے لوگ ہیں ان کے ذریعے ہم نے آگاہی پروگرام ترتیب دے کر اس کو سیریز تیار کی۔ ایک وڈیو بنائی گئی جسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا۔ اس کو ہم نے فیس بک پر بھی تمام متعلقہ جگہوں پر اپ لوڈکیا ۔اس کے علاوہ ہم نے ہر عالمی دن جیسے ورلڈ برین ڈے ،مرگی کا دن ہے ، فالج کا دن ہے اس حوالے سے ہم نے گزشتہ 10 برس میں 40 سے زائد مختلف پریس کانفرنس کی ہیں تاکہ پریس اینڈ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے درمیان آگاہی پیدا کی جاسکے۔ اس کے علاوہ عوامی آگاہی پروگرام بھی ہم نے کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی کیے ہیں۔ ہم نے قومی جرائد و رسائل میں بھی مضامین شائع کیے اور جہانِ اعصاب کے نام سے ایک آگاہی جریدہ سہ ماہی بنیادوں پر نکالا جو ذہنی امراض کے حوالے سے تھا۔ دماغی نہیں ،نیوروسرجری کے حوالے سے بھی اور جو سائیکاٹرسٹ کے حوالے سے بھی ہم عوامی آگاہی مہم چلارہے ہیں تو یہ ایک اہم ترین کام ہے جو ہم نے گزشتہ 10 برس میں کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں کسی اور نے یا کسی اور شعبے نے اس شعبے میں کام نہیں کیا جتنا نیورولوجی کے شعبے میں ہم نے کیا ہے آگاہی کے حوالے سے ۔
سوال: مستقبل میں آپ کے کیا منصوبے ہیں؟ جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں یا جو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کمی ہے جس پر کام ہونا چاہیے ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: پہلے میں یہ بتادوں کہ جو ہم نے طبی نیورولوجی کے حوالے سے آگاہی کا کام کیا ہے، ہم نے ملک گیر سطح پر تقریباً 500 سے زائد مفت دماغی امراض کے کیمپ منعقد کیے۔ تقریباً 500 مقامات ہیں جہاں ہم نے کیمپ منعقد کیے ہیں جن میں چاروں صوبے اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو طبی ، دماغی سہولت فراہم نہیں کی لیکن آگاہی پیدا کرنا دماغی امراض کے حوالے سے لوگوں کو جوڑنا یہ ہمارا بڑ اایک اہم مقصد تھا۔ ہماری اس کاوش میں کوئی شبہ نہیں۔ بہت بڑی تعداد تو ہم نہیں کہہ سکتے، 20 کروڑ کی آبادی ہے اس میں سے 70 ہزار لوگ ہیں جو ان کیمپوں سے مستفید ہوئے ہیں، لیکن اس کا مقصد بھی براہ راست آگاہی اور دماغی امراض کے حوالے سے معاشرے میں معلومات پھیلانا ہے تاکہ یہ کوشش ہو کہ اپنی بیماری کے حوالے سے ٹھیک ڈاکٹر کے پاس رجوع کریں۔ اس کے علاوہ آپ نے جو کہا کہ آئندہ کے حوالے سے تو ہمارا جو اس وقت ہدف ہے کہ آگاہی کا وہ مختلف مواقع پر ہم جاری رکھیں۔ مختلف آگاہی کے پروگرامز کے ذریعے ہم لوگوں میں پیشنٹ گروپس بنانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فالج ہے تو فالج پیشنٹ سپورٹ گروپ بنانا چاہتے ہیں۔مرگی کے پیشنٹ ہیں تو مریض خود طے کریں کہ ان کو کیا کرنا ہے؟ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنی ہے۔ ملٹی پل دماغی بیماریوں کے حوالے سے بھی کوشش کی ہے لیکن ہم مختلف جو فارمل بیماریاں ہیں ، فالج ، ملٹی پل دماغی امراض ، رعشہ اور مرگی اس کے حوالے سے ہم پیشنٹ سپورٹ گروپ بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اپنی بیماری اور اس کے علاج کے حوالے سے خود کوششیں بھی کریں اور آگاہی پیدا کریں تاکہ معاشرے کے اندر اس کی روک تھام بھی ہوسکے اور جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں ان کا علاج بھی ممکن ہوسکے۔ ایک ہم پیشنٹ سپورٹ گروپ بنانا چاہتے ہیں دوسرا ہم چاہتے ہیں کہ کراچی میں اپنا ایک Rehabilitation سینٹر قائم کریں ،جس پر ہم نے ایک این جی او کے ساتھ مل کر کام شروع بھی کیا ہے اور ابھی ہمارا پروجیکٹ پائپ لائن میں ہے۔ اس پروجیکٹ میں مریضوں کے لیے ایک مفت Rehabilitation سینٹر جس کے اندر مریض کو پراپر دماغی امراض کے حوالے سے Rehabilitation کی سہولیات میسر ہوں، جہاں پر سائیکاٹرسٹ ، نیورولوجسٹ اور دیگر امراض کے ڈاکٹرز ہمہ وقت دستیاب ہوں، ایک چھت کے نیچے پراپر سروسز دینے کا جواہم کام ہم کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی تک اس حوالے سے پاکستان میں کام نہ ہونے کے برابر ہے اور عام لوگوں کی پہنچ سے تو انتہائی دور ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے کم از کم 2 برس میں ہم اس کو مکمل کرسکیں ۔
سوال:یہ توبہت بڑا پروجیکٹ ہے جس طرح کہ آپ بیان کررہے ہیں۔ یہ بتائیں کیا یہ عام آدمی کے لیے مفت ہوگا ؟
ڈاکٹر عبدالمالک: اس پر ہمارا منشور تیار ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ اس پر جلد کام ہوگا تو وقت کے ساتھ تمام چیزیں سامنے آئیں گی۔
سوال:آگاہی کا کام میڈیا کے بغیر ممکن نہیں۔ اس پس منظر میں آپ میڈیا کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمالک: دیکھیں اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کی مدد کے بغیر ، اس کے تعاون کے بغیر ہم کام کو آگے نہیں بڑھاسکتے کیونکہ جس طرح کا کردار میڈیا کا معاشرے میں ہوتا جارہا ہے اور ہوچکا ہے اس سے تو ہمیں انکار ہی نہیں ہے۔ ہم نے اب تک جو کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے میڈیا کے ہیلتھ رپورٹرز کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھا ہے۔ ہم نے مختلف بیماریوں یعنی دماغی امراض کے حوالے سے ان کی ٹریننگ اینڈ ڈیولپنگ بھی کروائی ہے یعنی مختلف بیماری میں کیا ہوتا ہے او راس کا کیا علاج ممکن ہے؟ اس سلسلے میں ہم نے کراچی پریس کلب کمیٹی کے ساتھ مختلف آگاہی سیشنز کیے ہیں اور ہیلتھ رپورٹرز کے ساتھ ٹریننگ کا پروگرام بھی مرتب کیا ہے۔ مزید یہ کہ مختلف ایام کے موقع پر ہم نے ہیلتھ رپورٹرز کو ہی ساتھ لے کر مریضوں کے ساتھ آگاہی پروگرام کیا ہے اور اس سلسلے میں بہت ساری وڈیوز دی ہیں تاکہ میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے آگاہی بھی پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو معلوم ہو کہ اس بیماری میں اس کا کیا علاج معالجہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مضامین اور تحقیقی رپورٹس بھی ہم نے میڈیا کو فراہم کی ہیں تاکہ وہ ان کو اپنے جرائدمیں چھاپ کر معاشرے میںآ گاہی پیدا کرسکیں ۔ یہ تو مستقل سلسلہ جاری ہے یہ کوئی ایک ماہ یا ایک سال کا کام تو ہے نہیں اور ہم سال میں کم از کم 8سے 10بار میڈیا کے ساتھ پراپر تعاون کرکے سرگرمیاں منعقد کرتے ہیں یعنی ایک این جی او کے طور پر ہمارا بنیادی مقصد بیماریوں سے آگاہی دیناہے یعنی ہم نے میڈیا کے ساتھ مل کر کوشش کی ہے کہ جو معذوری کے معاملات ہیں، اس پر قانون سازی کی جائے، اسی طرح ادویات کے حوالے سے بھی جو ہمارے مطالبات ہیں وہ میڈیا کے ذریعے ہم نے دیے ہیں کہ بھئی مرگی اور فالج کی جو ادویات ہیں وہ ہمہ وقت دستیاب ہوں، اس طرح سے ہم میڈیا کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ ان کے تعاون کے ساتھ مستقل کرنے کے یہ کام کیے ہیں اور کر بھی رہے ہیں ۔
سوال:یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی این جی او کی سطح پر محدود پیمانے پر ہی کام ہوسکتا ہے۔ کیا اس سلسلے میں حکومت اور ریاست کے ساتھ کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کی بات ہوئی ہے تاکہ حکومتی وسائل اور نجی شعبے کے تعاون سے لوگوں کو ریلف مل سکے؟
ڈاکٹر عبدالمالک: ابھی ہم نے اپنے مستقبل کے پروجیکٹ کے حوالے سے بات کی ہے Rehabilitationسینٹر کے لیے۔ اس میں بالکل ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کے ساتھ مل کر لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ، ریاست ادارے بنائے اور ہم ہیومن ریسورس مہیا کریں کیونکہ ہمارا ٹریننگ اور ڈیولپمنٹ کا کام ہوگا۔ چونکہ ہم این جی او ہیں اور ادارے بنانا ہمارا کام نہیں ہے مقصد یہ ہے پراپر ہیومن ریسورس دینا، کوالٹی جو ٹھیک طریقے سے لوگوں کو سہولیات دے سکیں ان کی جو بھی بنیادی ضروریات ہیں جو بھی ہوں اس کے لیے ہیومن ریسورس کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کا ہم سمجھتے ہیں کہ فقدان ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم یہ کام جو ہے وہ آنے والے دنوں میں اس پہ زیادہ فوکس کریں گے بہ نسبت مزید ادارے بنانے کے ہیومن ریسورس کو ٹرینڈ کرنا اور پراپر طریقے سے آگے لے کر جانا، اس میں معاونت دینا اور تحقیق میں مدد کرنا ، ٹریننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کرانا چاہے وہ اندرون ملک ہے یا بیرون ملک ہو۔ اس پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ریاست کے ساتھ مل کر کام کرکے مختلف جو این جی او کی سپورٹس پر ہیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی پیشنٹ کو سستی ادویات اور تشخیصی سہولیات یہ دو کام ہم شعبہ صحت کے ساتھ مل کر دماغی امراض کے حوالے سے کرنے کا پلان رکھتے ہیں ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔