۔۔۔۔۔۔ اسلام اور سیاست ۔۔۔۔۔۔

261

ہمارے فلاسفہ نے سیاست کو تین شعبوں میں تقسیم کیا: ایک تہذیبِ نفس، دوسرا تدبیرِ منزل اور تیسرا تدبیرِ نظمِ اجتماعی۔ دینی اور دنیاوی اعتبار سے فردکا اپنے حق میں مفید باتوں کا انتظام کرنا اور نقصان دہ باتوں سے بچنا تہذیبِ نفس ہے۔ تدبیرِ منزل سے مراد اپنی کفالت ونگرانی میں جو خاندان کے افراد ہیں، اُن کے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کرنا اور مضَرّات سے بچانا ہے، اسی کو احادیثِ مبارکہ میں ان کلمات میں بیان فرمایا ہے:
(1) سیدنا سلمان اپنے دینی بھائی سیدنا ابودَرداء کے پاس گئے، تو انہوں نے (اُن کی بیوی) اُمِّ دَرداء کو پراگندہ حال دیکھا، انہوں نے اُن سے پوچھا: تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے، انہوں نے کہا: تمہارے بھائی ابودَرداء کو دنیا سے کوئی غرض ہی نہیں ہے، پھر ابودرداء آئے: اُن کے لیے کھانا تیار کیا گیا، ابودَرداء نے کہا: آپ کھائیں میں روزے سے ہوں، سیدنا سلمان نے کہا: جب تک آپ نہیں کھائیں گے، میں بھی نہیں کھاؤں گا، سو (مہمان کا دل رکھنے کے لیے) انہوں نے کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابودرداء نوافل میں کھڑے ہونے لگے، سیدنا سلمان نے کہا: سوجاؤ، پھر وہ سوگئے، کچھ دیر بعد وہ پھر نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو سلمان نے کہا: سو جاؤ، پھر جب رات کا پچھلا پہر آیا تو سیدنا سلمان نے کہا: اب اٹھ جاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے سیدنا سلمان نے کہا: بے شک تمہارے ربّ کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس ہر حق دار کو اُس کا حق دو۔ پھر (صبح) سیدنا ابودرداء نبی ؐ کے پاس حاضر ہوئے اور رات کا ماجرا (شکایت کے طور پر) بیان کیا، تو آپ ؐ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ہے، (البخاری)‘‘۔
(2) عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اے عبداللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات کو نوافل میں قیام کرتے ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ!، آپ ؐ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، کبھی نفلی روزہ رکھ لیا کرو اور کبھی چھوڑ دیا کرو، (رات کوکچھ دیر کے لیے) نوافل پڑھ لیا کرو اور (کچھ دیر کے لیے) سوجایا کرو، کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، (بخاری)‘‘۔
(3) عبداللہ بن عمر نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اُس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکمِ وقت سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ملازم اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، یہ باتیں میں نے رسول اللہ ؐ سے سنیں اور میرا خیال ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: اور آدمی اپنے باپ کے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، پس ہر ایک (کسی نہ کسی درجے میں) نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، (بخاری)‘‘۔
اس کے بعد ملک یا ریاست کے نظمِ اجتماعی کی تدبیر واصلاح کا شعبہ ہے، جو انبیائے کرام علیہم السلام انجام دیتے تھے۔ نظمِ اجتماعی کا کام یہ ہے کہ ملک کا دفاع ہو، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے جو انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہو۔ اس میں قرآن وسنت اوراُن سے مستنبط احکامِ شرعیہ کا نفاذ، زندگی کے تمام شعبوں میں عدلِ اجتماعی کا قیام، مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے حالات کو سازگار بنانا، مظلوموں کو اُن کا حق دلانا، ظالموں کے ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکنا، امیر وغریب کی تمیز کے بغیر تعلیم وترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا، ہر قسم کے استیصال کا خاتمہ، بنیادی ضرورتوں اور حاجات کی فراہمی الغرض تمام امور شامل ہیں۔ اس کے لیے حاکمِ وقت میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے، وہ یہ ہیں: صاحبِ علم اورصاحبِ عزیمت واستقامت ہونا، جیسا کہ سیدنا طالوت کے حوالے سے قرآنِ
کریم میں ہے: ’’اور اُن سے اُن کے نبی نے کہا: بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بناکر بھیجا ہے، وہ بولے: بھلا اُس کی بادشاہت ہم پر کیسے ہوسکتی ہے، جب کہ ہم اُس سے زیادہ بادشاہت کے حق دار ہیں اور اُسے تو مال کی وسعت بھی نہیں دی گئی، (اُن کے نبی نے) کہا: بے شک اللہ نے اُس کو تمہارے لیے منتخب فرمالیا ہے اور اس کو علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرمائی ہے اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور بڑے علم والا ہے، (البقرۃ: 247)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضراتِ داؤد و سلیمان علیہما السلام کو بادشاہت عطا کی تو اُن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم نے دونوں کو قوتِ فیصلہ اور علم عطا فرمایا تھا، (الانبیاء: 79)‘‘۔ اسی طرح حاکم کو قومی امانتوں کی حفاظت کا اہل اورصاحبِ علم ہونا چاہیے تاکہ اُسے پتا ہو کہ کس سے لینا ہے اور کس کو دینا ہے، سیدنا یوسف علیہ السلام نے حاکمِ مصر سے فرمایا: ’’مجھے زمین کے خزانوں کا نگران بنا دیجیے(کیوں کہ) میں حفاظت کرنے کا اہل اور علم والا ہوں، (یوسف: 55)‘‘۔ سیدنا شعیب علیہ السلام کی ایک صاحبزادی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اپنے والد سے کہا: ’’اے ابا جان! اِن کو اجرت پر رکھ لیجیے، بے شک آپ جس کو اجرت پر رکھیں گے، اُن میں سے بہترین وہی ہے جو طاقت ور اور امانت دار ہو، (القصص: 26)‘‘۔
(1) ’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی سیاست (نظمِ اجتماعی کی تدبیر) انبیائے کرام فرماتے تھے، جب کسی نبی کا وصال ہوجاتا تو دوسرا نبی اُس کی جگہ لیتا اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، عن قریب خلفاء ہوں گے، (بخاری)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ امت اور نظمِ اجتماعی کی تطہیر اور تدبیر شِعارِ نبوت ہے، حدیث پاک میں ہے:
(2) ’’سیدنا ابوذر بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ مجھے (کسی علاقے کا) حاکم کیوں نہیں بنالیتے، تو رسول اللہ ؐ نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: اے ابوذر! بے شک تم کمزور ہو اور اِمارت ایک امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی (کا باعث) ہوگی، سوائے اس کے کہ جو اس کا حق ادا کرے اوراس کی ذمے داریوں کو پوری طرح ادا کرے، (مسلم)‘‘۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ قوم کو ایک بار پھر ملک کے حالات کو بہتر لوگوں کے سپرد کرنے کا موقع مل رہا ہے، تو انہیں فیصلہ کرتے وقت مندرجہ بالا خصوصیات پیشِ نظر رکھنی چاہییں، ورنہ بعد میں پچھتانا بے سود ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک نے سیاست میں اپنا وجود منوایا ہے، انہوں نے ملک بھر میں تقریباً پانچ سو ستّر نمائندے کھڑے کیے ہیں۔ میڈیا کے جانبدارانہ رویے کے باوجود وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ اچانک ہلچل کیسے مچ گئی۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اہلسنت کا احساسِ محرومی ہے اور یہ 1986میں ایم کیو ایم کی اٹھان سے ملتی جلتی صورتِ حال ہے۔ اہلسنت 1988سے حکومت کے نظمِ اجتماعی سے مکمل طور پر باہر ہیں، نہ انہیں حقوق مل رہے ہیں اور نہ کہیں اُن کی شنوائی ہوتی ہے۔ کوئی حقیقتِ حال جاننا چاہے تو صرف اسلام آباد کی مساجد ومدارس کے لیے الاٹ شدہ یا قبضہ کیے گئے پلاٹوں کا سروے کرلے، خود اندازہ ہوجائے گا، پس جذباتی لوگوں نے اپنی امیدیں ان سے وابستہ کرلی
ہیں۔ تینوں سروسز پر مشتمل دفاعی اداروں، ڈی ایچ ایز اور آرمی ہاؤسنگ اسکیم کے مذہبی اور تعلیمی شعبوں میں پاکستان کی غالب اکثریت ہونے کے باوجود اہلسنت آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہ سلسلہ ستّر کے عشرے سے چلا آرہا ہے، میں اس کے بارے میں جنرل پرویز مشرف سے لے کر اب تک سب ذمے داران کو آگاہ کرتا رہا ہوں، لیکن شنوائی نہیں ہوتی، کیوں کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے سے سلیکشن میں دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسرے مسالک کے علماء یہاں تک کہ ایم ایم اے کے دورِ حکومت میں، میں نے مولانا فضل الرحمن سے بھی کہا تھا کہ آپ کا حصہ بڑا سہی، لیکن اہلسنت کی اشک شوئی کا بھی انتظام ہونا چاہیے، مگر انہوں نے اسے مذاق میں اڑادیا۔
مختلف مسالک کے کئی مذہبی رہنماؤں نے نجی طور پر مجھ سے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ مسئلۂ ختمِ نبوت کے حوالے سے جب آزمائش کا مرحلہ آیا، تو میدان میں لوگوں کو خادم حسین رضوی ہی نظر آئے‘‘۔ برملا نہ سہی، دل میں سب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ تحریک کے لوگوں کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فیصلے کے بعد اندازا ہوا ہے کہ اس میں سب بڑی جماعتیں اور پوری پارلیمنٹ ذمے دار ہے، میں شواہد کے ساتھ روزِ اول سے یہی بات لکھتا آیا ہوں، لیکن اس وقت اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
علامہ خادم حسین رضوی نے مختلف مقامات پر بڑے بڑے اجتماعات بھی منعقد کیے ہیں، ان کی یہ محنت انتخابی نتائج کی صورت میں منعکس ہوتی ہے یا نہیں، یہ اللہ کے علم میں ہے۔ لیکن اگر وہ جذبات سے معمور اس انسانی اثاثے کو قومی انتخابات کے بعد بھی اپنے ساتھ بدستور جوڑے رہے، تو مستقبل میں یہ ایک بڑی سیاسی قوت کی صورت میں نمودار ہوسکتے ہیں۔ بہت سے اصحابِ فکر ونظر 25جولائی کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کے مابعد کے منظر (Post Scenario) کے حوالے سے انتہائی متفکر ہیں، کیوں کہ فی الواقع انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوتے ہیں یا نہیں، یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا، لیکن قبل از انتخابات (Pre Poll) تاثر اچھا نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ بہت سے ذمے دار حلقوں کو یہ بات ناگوار گزرے، مگر نوشتۂ دیوار کی طرف بروقت متوجہ کرنا ہی بہتر ہے، بعد میں واویلا کرنا بے سود ہوتا ہے۔ الیکشن صرف عوامی مقبولیت کا نام نہیں ہے، یہ ایک مینجمنٹ سائنس ہے، اس میں وہی جیتتا ہے جو چوکنا اور چوکس ہو اور اس کے پولنگ ایجنٹ ایک پل کے لیے بھی غفلت کا ارتکاب نہ کریں۔ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پولنگ کے دن حلقے کے اعتبار سے بیس لاکھ تا ایک کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں، یعنی یہ باوسائل لوگوں کا کھیل ہے۔