پولنگ کا عمل مثالی تھا مگر انتخابات کے نتائج پر شکوک شبہات ہیں ۔ بیرسٹر حشمت حبیب، ضیاء اعوان فاروق حیات اور عامر خان ایڈوکیٹ سے جسارت کی گفتگو
انتخابات عمران خان کو کلیئر کرانے کے لیے کرائے گئے ۔
یہ آئین ، الیکشن ایکٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کے تحت ہوئے ۔ ای سی پی نتائج رات دو بجے تک جاری کرنے کی پابند ہے۔
کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات اگرچہ مثالی پرسکون ماحول میں شفاف، منصفانہ اور آزادانہ ہوئے لیکن نتائج کے اجراء کے عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں ۔ قانونی و آئینی ماہرین نے نے ان انتخابات کے بارے میں واضح الفاظ میں کہا کہ یہ الیکشن آئین کے ، الیکشن ایکٹ کے اور سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ہوئے ہیں جبکہ تاخیر سے نتائج نے پورے انتخابی عمل پر سوال اٹھایا دیے ہیں ۔ نمایندہ جسارت کے جائزے کے مطابق بظاہر کراچی سمیت ملک بھر میں مجموعی طور پر امن ماحول میں شفاف ، منصفانہ ، آزادانہ انتخابات کا انعقاد کرواکر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان آرمی نے ایک نیا ریکارڈ اور اعزاز حاصل کرلیا ۔ انتخابات اس لحاظ سے بھی تاریخی رہے کہ ووٹرز کا جوش و خروش ماضی کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دے رہا تھا ۔۔جبکہ کراچی کے لوگوں نے دیکھا کہ یہاں 26 سال بعد ریکارڈ شفاف منصفانہ، آزادانہ انتخابات ہوئے الیکشن میں امن و امان کی اطمینان بخش صورتحال کی وجہ سے ووٹرز کی دلچسپی بھی مثالی تھی ۔ تاہم ان الیکشن کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ آٹھ پارٹیوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرکے نہیں دھاندلی سے منسوب کردیا ہے ۔ایم ایم اے اور اس میں شامل جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی ؛ایم کیو ایم پاکستان ، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی کو بھی غیر متوقع طور پر بیشتر نشستوں پر ناکامی کے نتائج کی وجہ سے تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہیں ۔ اس ضمن میں نمائندہ جسارت نے آئینی و قانونی ماہرحشمت حبیب ایڈوکیٹ سے انتخابات پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ” یہ الیکشن آئیں، الیکشن ایکٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ہوا ہے” ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ” یہ الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں یہ طے شدہ تھے یہ انتخابات بھی فری ، فیئر اور ٹرانسپیرنٹ نہیں تھے ” ۔ الیکشن کمیشن نے جج کو آر اوز بھی سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف بنایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں آرمی کی پولنگ اسٹیشنز کے اندر ڈپلائمنٹ بھی آئین کی خلاف تھی آئیں میں آرمی کو پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگایا جاسکتا ہے مگر اندر نہیں ، ایسا کیے جانے سے شبہ تھا کہ الیکشنز انجینئرز کیے جائیں گے جو اب ایسا ہورہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انتخابات کا فارم 45 اور 48 کی کاپی پولنگ ایجنٹوں کو دیا جاتا ہے مگر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالنے کی اطلاعات ہیں ۔حشمت حبیب نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کی کوشش رہی کہ عمران خان کو کلیئر کیا جائے ۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں انتخابات کے نتائج الیکشن زیادہ سے زیادہ رات دو بجے تک جاری کرنا لازمی تھا مگر پہلا نتیجہ رات چار بجے جاری کیا گیا۔ ممتاز سماجی کارکن اور ماہر قانون ضیاء اعوان ایڈوکیٹ نے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پولنگ کا عمل مثالی تھا مگر نتائج کے حوالے سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ انجینئرڈ ہیں میں کہتا ہوں کہ یہ نتائج انجینئرڈ سے زیادہ ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ مختلف پارٹیاں جو کچھ کہہ رہیں ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اس بارے میں الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے اس عمل کا دفاع نہیں کرنا چاہیے اور نہ کہ یہ الزامات مسترد کرینا چاہیے ۔ ضیاء اعوان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ان الزامات کی تحقیقات کرانے کا یقین دلانا چاہیے ۔ ممتاز وکیل فاروق حیات ایڈوکیٹ نے کہا کہ انتخابات کے نتائج تاخیر سے آنے پر سوالات اٹھ چکے ہیں جو فنی خرابیاں ہوئیں اس کی زمے داری بھی الیکشن کمیشن ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ کا کردار سب کے سامنے ہے وہ عام لوگوں کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھتی ہے ۔اسلامک لائبریری فورم کے رہنما عامر ایڈوکیٹ کا مؤقف تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کا عمل الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ اس عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ۔ #