قومی معیشت پلِ صراط کا سفر

219

ایک انگریزی اخبار کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ قومی معیشت پر طاری عذاب جانکنی کے اثرات اب گیم چینجر کہلانے والے منصوبے سی پیک پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اخبار نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حوالے سے کہا ہے کہ پانچ بلین کے چیک باونس ہونے کے بعد ٹھیکیداروں اور مزدوروں نے منصوبوں پر کام روک دیا ہے۔ سی پیک کے ساتھ ساتھ مالی بحران کے اثرات مقامی تعمیراتی کمپنیوں اور ان سے وابستہ انجینئرز اور مزدوروں تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبار کی اس خبر کو بھارت کے تمام بڑے اخبارات نے نمک مرچ لگا کر دہرایا۔ باون بلین ڈالر کا سی پیک منصوبہ پاکستان کی معیشت ہی نہیں اس کے عالمی اور علاقائی رول کے حوالے سے گیم چینجز کہلاتا ہے۔ پاکستان نے اس منصوبے کے لیے آگ اور خون کا دریا عبور کیا ہے۔ دو عشروں سے پاکستان پر پل پڑنے والے اکثر عذابوں کا براہ راست یا بلاواسطہ تعلق اسی منصوبے سے ہے۔ اسی منصوبے کی امید پر پاکستان مشکل لمحوں کو ٹالتا رہا۔ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ گیم چینجر منصوبہ پاکستان کے لیے اثاثے کے بجائے بوجھ بن کر نہ رہ جائے۔ پاکستانی معیشت کو راکٹ کی تیزی سے بلندیوں پر لے جانے کی امید پر شروع کیا جانے والا منصوبہ اس کی معیشت کو لے ڈوبنے کا باعث نہ بنے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سامنے سری لنکا کی مثال موجود ہے جہاں سر لنکا کی حکومت نے چین سے قرض لے کر ایک نئی بندرگاہ کی تعمیر شروع کی مگر بدعنوانی اور تساہل کے باعث تعمیراتی لاگت بڑھتی چلی گئی۔ جسے دیکھ کر چین سمیت کسی ملک نے قرض دیبنے سے انکار کیا اور یوں سری لنکا کی حکومت کو مجبوراََیہ بندرگاہ چین کو ننانوے سالہ لیز پردینا پڑی۔ یوں ایک نئی بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ گناہ بے لذت سے بڑھ کر ایک بوجھ ہی ثابت ہوا۔ ہر گزرتا ہوا دن معیشت کے حوالے سے کوئی اچھی خبر لے کر طلوع نہیں ہوتا۔ قومی معیشت کے دامن سے خوفناک اور تشویشناک بریکنگ نیوز وابستہ ہو چکی ہیں اور ان میں ہر خبر معیشت کی تنزلی کی جانب سفر کے بارے میں ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ معیشت کا آتش فشاں پوری طرح اندر ہی اندر پکتا رہا ہے البتہ اس کے اوپر ایک خوبصورت ڈھکن رکھا ہوا تھا جس پر بیٹھ کر ہمارے وزرائے خزانہ خوش الحانی کے ساتھ ’’سب اچھا‘‘ کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ ملکی
معیشت کو آکسیجن ٹینٹ پر مصنوعی انتظام کے تحت چلایا جاتا رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت روپے کی قدر میں ایک بار پھر ہونے والی کمی ہے۔ گزشتہ روز روپے کی قدر میں اچانک کمی کر دی گئی اور یوں ڈالر مزید چھ روپے مہنگا ہوگیا۔ مجموعی طور روپے کے مقابلے میں ڈالر 127روپے50پیسے ہوگیا مگر اوپن مارکیٹ میں یہ قیمت 128سے بھی آگے 130پر جا رُکی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں اس قدر کمی سے اشیائے ضرورت مہنگی ہورہی ہیں اور یوں مہنگائی کا ایک اورسیلاب عوام کو اپنے دامن میں خاموشی سے لپیٹتا چلا جا رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتے ہی اسٹاک ایکسچینج میں بھی مندی کا رجحان غالب آگیا۔ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آچکی ہے اور درآمدات وبرآمدات کے درمیان عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت برآمدات کا حجم اگر 23ارب ڈالر ہے تو درآمدات کا حجم 60ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات میں کمی بتا رہی ہے کہ ہماری معیشت اور صنعت کو اندر سے گھن لگ چکا ہے۔ ہم نہ تو مال تیار کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی اپنا مال باہر بھیجنے کی سکت باقی رہی ہے۔ اس کی وجہ معاشرے میں پھیلی کرپشن، مہنگائی اورلوڈشیڈنگ ہے۔ان وجوہات کی بنا پر صنعت کار اپنی دکان بڑھاکر چلے جانے میں ہی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے ہماری معیشت کو ایڈہاک ازم پر کھڑا رکھنے کے لیے ایک ہی نسخہ تیار کر رکھا ہے اور ہمارے ماہر معاشی منصوبہ ساز اور جادوگر من وعن اس نسخے پر عمل کر نے پر مجبور ہیں۔ معاملات طے کرتے وقت اور معیشت کو بحال کرنے کے لیے ان کی ذہانت اور جادوگری کہاں چلی جاتی ہے کسی کو علم نہیں؟۔ نگراں حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ملکی معیشت کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا تی رہی۔ آنے والی حکومت سارا سفر انہی باردوی سرنگوں پر جاری رکھنے پر مجبور ہو گی۔ خدانخواستہ کسی وقت پاؤں باردوی سرنگ سے ٹکراگیا تو حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ معیشت کی بگڑی ہوئی حالت نے گیم چینجر منصوبہ کہلانے والے سی پیک کو متاثر کرنا شروع کیا ہے۔ تو اس کے بعد خرابی کی اور کیا حد ہے؟ المیہ یہ ہے کہ بھی سیاسی جماعت نے ملکی معیشت کو لاحق اس موذی مرض کا کوئی شافی علاج ابھی تک تجویز نہیں کیا۔ اس رویے کی بنا پر لگتا ہے کہ ایڈہاک ازم آگے بھی قوم کا مقدر ہے۔ پاکستان کے اس معاشی عارضے کا حل اینٹی بائیوٹک کے ذریعے نکالنے کی کوششیں اب ترک کرنا ہوں گی اب اس معیشت کا علاج ایک مکمل عمل جراحی میں ہے جہاں عوام کے پیٹ پر ایک پتھر اور حکمران کے پیٹ کے ساتھ دو پتھر بندھے ہوں کیوں کہ اب حکمران طبقات کے قربانی دینے کا وقت آگیا ہے۔