الیکشن نتائج یا محاذآرائی کی کھائی

329

الیکشن 2018میں قوم کا کردار ختم اور دوسرے اداروں کا شروع ہو گیا ہے۔ جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی117 مسلم لیگ (ن) کی 63 اور پیپلز پارٹی کی 37 نشستوں پر کامیابی کے غیر سرکاری نتائج سامنے آچکے ہیں۔ تحریک انصاف وفاق، خیبر پختوانخوا اور پنجاب میں حکو مت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
سرشام الیکشن نتائج آنا شروع ہوئے اور رات گئے متنازع بھی ہوگئے۔ تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتوں نے الیکشن کے نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ آٹھ سیاسی جماعتوں نے ایک ہی جیسے الزامات کے تحت دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن سے لے کر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق تک کوئی طاقتور شخصیت موجود نہ ہو۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ’’یہ جو اکثریت ہے اس کے پیچھے عسکریت ہے‘‘ نہ جانے کیوں الیکشن کے تکلف کی ضرورت محسوس کی گئی بغیر الیکشن ہی اپنے من پسند افراد کو اقتدار سونپ دیا جاتا۔ اس طرح کی دھاندلی کا شور 1977کے الیکشن میں سامنے آیا تھا یا پھر موجودہ الیکشن میں دیکھنے میں آیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’دھاندلی شدہ نتائج قبول نہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس بلاکر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی اسی قسم کا اعلان کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں بھی اور اسمبلیوں سے باہر بھی ایک سخت صورت حال کا سامنا کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی کے سوا اگر تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مولانا فضل الرحمن سب کو مجتمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسمبلیوں میں صرف تحریک انصاف ہی تحریک انصاف نظر آئے گی۔ اس صورت میں قومی اسمبلی کی کارروائی اور قانون سازی کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ الیکشن سے پہلے ہم نے جس پولرائزیشن کا کل کے کالم میں ذکر کیا تھا الیکشن کے بعد اس میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ ملک شدید محاذ آرائی کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔ ایک تحریک انصاف کا احتجاج مسلم لیگ (ن) کی حکومت برداشت نہ کرسکی، تمام جماعتوں کا احتجاج تحریک انصاف کی تنہا حکومت کیسے بسر کرے گی۔ بھٹو جیسا مضبوط شخص اپوزیشن کے مشترکہ احتجاج کی تاب نہ لاسکا تھا، اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ عمران خان نے سڑکوں اور دھرنوں کی جس سیاست کا آغاز کیا تھا اب انہیں اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ قوم کو اس الیکشن سے کیا حاصل ہوگا امجد اسلام امجد کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے۔
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرزوئیں جلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں
گرد اُڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا جاتا ہے
راستے نہیں گھٹتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے آفتاب کہتے ہیں
دائرے بدلنے کو ’’انتخاب‘‘کہتے ہیں
امجد اسلام امجد نے دائرے بدلنے کو ’’انقلاب‘‘ لکھا ہے جسے ہم نے’’ انتخاب‘‘ سے بدل دیا ہے۔
اس سلیکشن کی ایک اور خاص بات دینی جماعتوں کے باب میں ہے جن کا صفا یا کردیا گیا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام جس کے تحت انتخابات کا ڈراما رچایا جاتا ہے اب دینی جماعتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ دینی جماعتوں کو لوگوں نے ووٹ ہی نہیں دیے۔ لبرلز حضرات اس صورت حال سے بے حد خوش ہوتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں ’’لوگ اسلام نہیں چاہتے۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ موجودہ الیکشن ہوں یا ماضی کے، الیکشن یہ پوچھنے کے لیے نہیں کرائے جاتے کہ عوام کون سا نظام چاہتے ہیں۔ آمریت، جمہوریت یا اسلام۔ مستقبل میں جب بھی اس بنا پر الیکشن کرائے گئے عوام کا صرف اورصرف ایک ہی فیصلہ ہوگا۔ اسلام۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن چند ایشوز پر کرائے جاتے ہیں مثلاًپانی کی قلت، لوڈ شیڈنگ، بدامنی، نوکری، کچرے کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سیوریج اور گلی محلوں کے مسائل۔ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھی قاعدے قانون اور انصاف کے تقاضوں کو خاطر میں نہ لانے والی سیکولر جماعتیں ان مسائل کے حل میں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی ہیں۔ مثلاًپیپلز پارٹی کا یہ وصف رہا ہے کہ وہ جب بھی کامیاب ہوتی ہے اپنے لوگوں کو سرکاری محکموں میں بے پناہ کھپاتی ہے۔ دیگر جماعتیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں جب کہ دینی جماعتیں ماضی میں جب بھی اقتدار میں آئیں انہوں نے اپنے لوگوں کے بجائے انصاف اور میرٹ پر نوکریاں دیں۔ اس نظام میں جہاں دو نمبری کیے بغیر کسی کام کو ممکن بنانا ممکن نہیں، سیکولر جماعتیں دینی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے نتائج دیتی ہیں۔ تیسری بات یہ کہ دینی جماعتوں کی ناکامی میں خود ان کا قصور بھی ہے۔ دینی جماعتیں بھی ان نعروں اور انتخابی اسٹائل کی اسیر ہوکر رہ گئی ہیں جو سیکولر سیاسی جماعتوں کا طرز عمل ہے۔ دینی جماعتوں نے بھی صرف نعرے دیے ہیں جن میں اسلام کی انقلابی روح ہے اور نہ اسلامی انقلاب کی تڑپ۔ چوتھی بات یہ کہ دینی جماعتوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس نظام میں رہ کر اسلام کا قیام ممکن نہیں۔ اس نظام میں دینی جماعتیں جیت کر بھی اسلام نا فذ نہیں کرسکتیں۔