آئینی ماہرین نے الیکشن کے انعقاد اور نتائج کو خلاف قانون قرار دیا 

332

کراچی(رپورٹ : محمد انور ) 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات اگرچہ مثالی پرسکون ماحول میں شفاف،منصفانہ اور آزادانہ ہوئے لیکن نتائج کے اجرا کے عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔قانونی و آئینی ماہرین نے ان انتخابات کے بارے میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یہ انتخابات الیکشن ایکٹ اور عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف ہوئے ہیں جبکہ تاخیر سے نتائج نے پورے انتخابی عمل پر سوال اٹھایا دیے ہیں۔ نمائندہ جسارت کے جائزے کے مطابق بظاہر کراچی سمیت ملک بھر میں مجموعی طورپرپرامن ماحول میں شفاف، منصفانہ ،آزادانہ انتخابات کا انعقاد کراکر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان آرمی نے ایک نیا ریکارڈ اور اعزاز حاصل کر لیاہے۔انتخابات اس لحاظ سے بھی تاریخی رہے کہ ووٹرز کا جوش و خروش ماضی کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دے رہا تھا جبکہ کراچی کے لوگوں نے دیکھا کہ یہاں 26 سال بعد ریکارڈ شفاف، منصفانہ، آزادانہ انتخابات ہوئے،الیکشن میں امن و امان کی اطمینان بخش صورتحال کی وجہ سے ووٹرز کی دلچسپی بھی مثالی تھی تاہم ان الیکشن کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں،یہی وجہ ہے کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت 8 پارٹیوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرکے انہیں دھاندلی سے منسوب کردیا ہے۔ایم ایم اے اور اس میں شامل جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم پاکستان ، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی کو بھی غیر متوقع طور پر بیشتر نشستوں پر ناکامی کے نتائج کی وجہ سے تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہیں۔ اس ضمن میں نمائندہ جسارت نے آئینی و قانونی ماہرحشمت حبیب ایڈووکیٹ سے انتخابات پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ” یہ الیکشن آئین،الیکشن ایکٹ اورعدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف ہوا ہے”۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ” یہ الیکشن کے جو نتائج آئے ہیں یہ طے شدہ تھے یہ انتخابات بھی فری ، فیئر اور ٹرانسپیرنٹ نہیں تھے “۔ الیکشن کمیشن نے جج کو آر اوز بھی عدالت عظمیٰ کے حکم کے خلاف بنایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں آرمی کی پولنگ اسٹیشنز کے اندر ڈپلائمنٹ بھی آئین کی خلاف تھی،آئین میں آرمی کو پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگایا جاسکتا ہے مگر اندر نہیں،ایسا کیے جانے سے شبہ تھا کہ الیکشنز انجینئرز کیے جائیں گے جو اب ایسا ہورہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انتخابات کا فارم 45 اور 48 کی کاپی پولنگ ایجنٹوں کو دی جاتی ہے مگر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالنے کی اطلاعات ہیں۔ حشمت حبیب نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کی کوشش رہی ہے کہ عمران خان کو کلیئر کیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں انتخابات کے نتائج الیکشن کمیشن کوزیادہ سے زیادہ رات2 بجے تک جاری کرنا لازمی تھا مگر پہلا نتیجہ رات 4بجے جاری کیا گیا۔ ممتاز سماجی کارکن اورماہر قانون ضیااعوان ایڈووکیٹ نے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پولنگ کا عمل مثالی تھا مگر نتائج کے حوالے سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ انجینئرڈ ہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ نتائج انجینئرڈ سے زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ مختلف پارٹیاں جو کچھ کہہ رہیں ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اس بارے میں الیکشن کمیشن کو ایکشن لینا چاہیے اس عمل کا دفاع نہیں کرنا چاہیے اور نہ کہ یہ الزامات مسترد کرینا چاہیے۔ضیااعوان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ان الزامات کی تحقیقات کرانے کا یقین دلانا چاہیے۔ ممتاز وکیل فاروق حیات ایڈووکیٹ نے کہا کہ انتخابات کے نتائج تاخیر سے آنے پر سوالات اٹھ چکے ہیں جو فنی خرابیاں ہوئیں اس کی ذمے داری بھی الیکشن کمیشن پرہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ کا کردار سب کے سامنے ہے،وہ عام لوگوں کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھتی ہے۔ اسلامک لائبریری فورم کے رہنما عامر ایڈووکیٹ کا مؤقف تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے کا عمل الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے،اس عمل سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔