مدینہ جیسی فلاحی ریاست

848

صورت حال مکمل تو نہیں مگر بڑی حد تک واضح ہو چکی ہے۔ بدھ کو ہونے والے انتخابات کے نتائج جمعہ تک آرہے تھے۔ جیت ہار کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو ہار رہا تھا وہ جیت گیا کہ کچھ حلقوں کے نتائج بعد میں موصول ہوئے۔ ابھی یہ بھی طے نہیں ہے کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب پر کس کی حکومت ہوگی۔ جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ مرکز میں تحریک انصاف ہی کی حکومت بنے گی چنانچہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک وزیر اعظم کی طرح قوم سے خطاب بھی فرمالیا۔ الفاظ کی حد تک تو یہ بڑا ’’مومنانہ‘‘ خطاب تھا جسے سراہا جارہاہے۔ خدا کرے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ اس پر قائم بھی رہیں، خاص طور پر اس بات پر کہ ’’ پاکستان کو مدینے جیسی فلاحی ریاست بناؤں گا ‘‘۔ خوش گمانی سے کام لیتے ہوئے ان کے اس عزم کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قادر و قیوم ہے وہ کسی سے بھی اچھا کام لے سکتا ہے لیکن سیکولر عناصر اور بعض بیرونی طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں آئے گی اور ایک تبصرہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہونے سے پہلے ایسی باتیں کرتے تو ان کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔ امریکا جیسی طاقت کسی بھی مسلم ملک میں یہ گوارہ نہیں کرسکتی کہ کوئی اپنے ملک کو نہ صرف اسلامی شناخت دے بلکہ مدینہ منورہ جیسی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرے۔ بارہا یہ ہواہے کہ کسی مسلم ملک میں مغربی جمہوریت کی اتباع کرتے ہوئے کوئی دین دار جماعت کامیاب ہوئی اور حکومت بنا لی تو اس کے خلاف فوجی بغاوت کروادی گئی۔ الجزائر سے مصر تک ایسی کئی وارداتیں ہوئی ہیں ۔ تاہم عمران خان مغرب کے لیے ایک پسندیدہ چہرہ ہیں اس لیے شاید ان کے ساتھ ایسا نہ ہو اور یہ انتظار کیا جائے کہ ان کے دعوے محض الفاظ ہیں یا وہ سچ مچ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا ماضی تو کچھ اور کہتا ہے لیکن کسی کی بھی قلب ماہیت اللہ کے اختیار میں ہے چنانچہ ان کے لیے دعا کی جانی چاہیے۔ وہ ایک عرصے سے تبدیلی لانے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اب جب کہ زمام اقتدار ان کے ہاتھ لگ گئی ہے تو اپنے نعرے کو عملی شکل دیں۔ لیکن انہوں نے انتخابات جینے کے لیے جو الیکٹ ایبلز جمع کرلیے ہیں کیا وہ بھی عمران خان کے عزائم میں ان کا ساتھ دیں گے ؟ عمران خان کو سب سے مشکل چیلنج جو درپیش ہوگا وہ گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔ فوری طور پر تو انہوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ سادگی اپنائیں گے، سرکاری اخراجات کم کریں گے، وزیر اعظم ہاؤس کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا یعنی اسے جامعہ یا کالج بنا دیا جائے گا اور اسی طرح گورنر ہاؤسز کو عوامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، ٹیکس چوری نہیں ہوگی اور سب سے پہلے احتساب خود ان کا ہوگا، پھر وزراء کی باری آئے گی۔ امید ہے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے دو کروڑ روپے کی چائے پلانے کا حساب بھی لیں گے جن کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا جارہا ہے۔ گورنر ہاؤس لاہور کو تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ میاں نواز شریف نے بھی کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ لیکن کیا صوبوں کے گورنر اس سے اتفاق کرلیں گے ؟ سرکاری اخراجات پر قابو پالینا عمران خان کا بڑا کارنامہ ہوگا۔ سرکاری ادارے کرپشن کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ امید ہے کہ عمران خان اسپیکر پختونخوا اسمبلی اسد قیصر سے ان گاڑیوں کا حساب بھی لیں گے جو ان کے قبضے میں ہیں ۔ عمران خان نے اگر اپنے وعدے پورے کردیے تو یقیناًوہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ورنہ تو ایسے وعدے ڈکٹیٹر کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کو نیا پاکستان بنانے کا موقع ملا ہے جہاں قانون کی بالادستی ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ ایک کام وہ ضرور کریں کہ اپنے پروٹوکول میں کمی لائیں اور عوام کے لیے راستے بند کرنے کی روایت ختم کریں ۔ عمران خان نے اپنی کابینہ کے متوقع وزراء کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ شیخ رشیدکو ان کی وفاداری کے صلے میں وزارت ریلوے مل سکتی ہے جوجنرل پرویز مشرف نے ان کوعطا کی تھی مگر شیخ صاحب کسی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ اسد عمر کو وزارت خزانہ دینے کا فیصلہ اچھا ثابت ہوسکتا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق شیریں مزاری کو وزیر دفاع بنایا جارہا ہے، یہ فیصلہ شاید مناسب نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ شیریں مزاری کے فوج سے اچھے تعلقات ہیں لیکن آئینی طور پر افواج پاکستان کا سربراہ وزیر دفاع کے تحت ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی سویلین وزیر دفاع کی بالادستی تسلیم نہیں کی گئی اور اب ایک خاتون کی بالا دستی کیسے قبول کی جائے گی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اپنی ٹیم کے بارے میں فیصلے کرنا عمران خان کا اختیار ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں سے رابطے شروع کردیے ہیں ا ور پہلا رابطہ ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول سے ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے کراچی سے غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے چنانچہ ممکن ہے کہ کابینہ میں کراچی سے بھی کسی کو لیا جائے۔ لیکن اگر ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کے لیے اسے وزارت دی گئی تو یہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کی توہین ہوگی جنہوں نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں عمران خان کو ترجیح دی۔ سندھ میں تو تحریک انصاف کی حکومت بننے کا امکان بالکل نہیں ہے۔ اس صوبے پر پیپلز پارٹی کی لوٹ مار کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ ایم کیو ایم میں توڑ پھوڑ کا پورا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا ہے۔ پنجاب میں ابھی تک الٹ پھیر جاری ہے۔ وہاں بھی کئی حلقوں کے نتائج مشکوک ہیں اور میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ نتائج چوری کیے گئے۔ انہوں نے شہباز شریف کو تحریک چلانے کی ہدایت کی ہے لیکن حمزہ شہباز عمران خان کو مبارک باد دیتے نظر آتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کی کامیابی تسلیم کرلی ہے۔ پنجاب میں کس کی حکومت بنتی ہے یہ بات بہت اہم ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے نتائج مسترد کردیے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن نے بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد جیسی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جس کی کامیابی کو فوج نے اپنے حق میں استعمال کیا تھا۔ شہباز شریف نے دھاندلی کے ثبوت الیکشن کمیشن کو پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس بار دھاندلی اس خوبی سے کی گئی ہے کہ اس کا ثبوت حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ عوام کو آزادی کے ساتھ ووٹ ڈالنے کا موقع ضرور فراہم کیا گیا لیکن ہیرا پھیری نتائج میں کی گئی ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ جن حلقوں میں دھاندلی ہونے کا الزام ہے وہ تمام حلقے کھولنے کو تیار ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے بھی دھاندگی کا الزام لگایا تھا اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت نے یہ حلقے کھولنے میں طویل عرصہ لگا دیا۔ اس کے برعکس عمران خان ہر مشکوک حلقہ کھولنے پر تیار ہیں ۔ ویسے تو عمران خان نے 35پنکچر لگانے کا شور مچایا تھا مگر اب بات 40,35 سے بہت آگے چلی گئی ہے اور تمام عمل ہی مشکوک ہوگیا ہے جس پر 21ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ مطالبہ تو نئے انتخابات کا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہوگا۔ عمران خان کی 22سال کی جدوجہد کامیاب ہوگئی ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ ٹیریان وائٹ سمیت اپنی اولاد کو پاکستان بلا لیں۔ جمائما گولڈ اسمتھ کی نگرانی میں پلنے والے عمران خان کے بیٹوں کو بھی پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے عمل میں شامل ہونا چاہیے ورنہ مغرب کا رنگ اتنا پختہ ہو جائے گا کہ مدنی رنگ ہرگز نہیں چڑھے گا۔