تقریر

355

ثابت ہو گیا وزیراعظم وہی جو پیا من بھائے۔ عمران خان کی کامیابی پر آرمی چیف کو مبارکباد دی جائے، چیف جسٹس کو یا پھر پیرنی کو۔ عمران کی کامیابی میں ویسے تو سب ہی شریک ہیں لیکن پیرنی کا کردار زیادہ نظر آتا ہے۔ ادھر پیرنی صاحبہ عمران کے نکاح میں آئیں انہوں نے نہ جانے کون سا موکل نواز شریف پر مسلط کیا نوازشریف کا ہر قدم سوئے زندان اور عمران کا ہر قدم کوئے یار کی طرف اٹھنے لگا۔ عمران خان کو اقتدار ملنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا ایک دست شناس نے کسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ’’اگر آپ کے دادا کے اولاد نہیں ہوئی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ آپ کے والد کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے آپ کے ہاں بھی نہ ہو‘‘۔ کپتان کی کامیابی میں اس گدھے کا خون بھی شامل ہے جسے تحریک کے کارکنوں نے اتنا مارا تھا کہ وہ جاں سے گزرگیا۔ وہ گدھا بھی عالم بالا سے عمران کو مخاطب کرکے کہہ سکتا ہے ’’ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں‘‘ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ’’جب تک شادی نہ ہو، معشوقہ محمل نشیں لیلی ہوتی ہے اور شادی کے بعد وہ انگنائی میں بندھی ہوئی گائے میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے‘‘۔ اب دیکھتے ہیں عمران خان لیلی اقتدارکے ساتھ معشوقہ والا سلوک کرتے ہیں یا انگنائی میں بندھی ہوئی گائے کا۔ بھارت کے لالو پرساد نے حکومت چلانے کے بارے میں کہا تھا ’’اس میں کون سا کمال ہے پہلے ہم مویشی چراتے تھے اب عوام کو چلاتے ہیں۔‘‘ عمران پہلے کھلاڑیوں کے ساتھ پلے کرتے تھے اب قوم کے ساتھ پلے کریں گے۔ عمران خان اب جب کہ مستقبل کے وزیراعظم ہیں ان کی خدمت میں بھگت کبیر کے چند اشعار
پریتم ایسی پریت نہ کریو، جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ نہ ہی، بھوک لگے تو پھل دور
پریت کبیرا ایسی کریو جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے اور مرو تو نہ چھوڑے ساتھ
پریت نہ کریو پنچھی جیسی جل سوکھے اڑ جاوے
پریت تو کریو مچھلی جیسی، جل سوکھے مرجاوے
ترجمہ: میرے محبوب ایسی محبت نہ کرنا جیسی کھجور کا درخت کرتا ہے۔ دھوپ لگے تو سایہ نہیں دیتا اور بھوک لگے تو اس کا پھل بھی دور ہوتا ہے۔ کبیرا ایسی محبت کرنا جیسی کپاس کرتی ہے۔ زندگی ہو تو تن کو ڈھانپتی ہے اور مرجاؤ تو بھی (کفن کی صورت) ساتھ نہیں چھوڑتی۔ پرندے جیسی محبت نہ کرنا ادھر پانی سوکھا اور وہ اڑا۔ پریت کرنا تو مچھلی جیسی۔ پانی سوکھے تو اس کے ساتھ ہی مرجاتی ہے۔
عمران خان کی تقریر بھی کچھ ایسے ہی جذبات کی آئینہ دار تھی۔ ہم نے ایسی تاثر سے بھرپور تقریر کم ہی سنی ہے۔ نوازشریف اردو تو درست بولتے تھے لیکن ان کا چہرہ عموماً سپاٹ ہوتا تھا۔ بے نظیر کی اردو ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی غیر ملکی اظہار خیال کررہا ہو۔ عمران کا نہ چہرہ سپاٹ تھا اور نہ ان کی تقریر میں اذان بج رہا تھا۔ پاکستان کے غمزدہ اور اچھے دنوں کے منتظر لوگوں کے لیے ان کی تقریر امید سے چھلکتا جام تھی۔ تقریر میں جن موضوعات کو چھیڑا گیا تھا ان کا تعلق عام آدمی سے تھا۔ کمزور طبقات کو ان کا جائز مقام دینا، معاشی صورت حال کو بہتر کرنا، غربت کا خاتمہ کرنا، مہنگائی کو کم کرنا، کرپشن کو ختم کرنا سب ایسی باتیں تھیں کہ ہر شخص نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔ تقریرکی جان عمران کی بدن بولی اور لہجے کا خلوص تھا جس میں ان کے تضاد بھی نظر نہیں آئے۔ کشمیر کا ذکر انہوں نے روایتی انداز میں کیا۔ امریکا کے بارے میں بھی وہ طرح دے گئے۔ کہاں ایک وقت تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی افواج کی سپلائی لائن کاٹنے پر دھرنا دیتے تھے اور کہاں آج یہ احساس کہ ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔‘‘ افغانستان کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ افغانستان اور پاکستان یقیناًدو ایسے برادر ملک ہیں جن کی زندگی اور موت ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔ تاہم عمران خان نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان یورپی یونین کی مثل آزادانہ نقل وحرکت اور سرحدوں کے خاتمے کی جو بات کی ہے وہ نہ جانے افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے بھی سنی ہے یا نہیں جو ڈیورنڈ لائن پر دیوار تعمیر کرنے اور آمدو رفت پر پابندیاں لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ خیر جب عمران خان کو جی ایچ کیو بلاکر برین واش کیا جائے گا عمران کو پتا لگ جائے گا کیا ہوتے ہیں دفاع وطن کے تقاضے۔
عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے کی جو بات کی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں اگر رہنا نہیں تھا تو نواز شریف کو وہاں سے نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔ وسیع وعریض گورنر ہاؤسز کے مفید استعمال کی باتیں بھی اچھی ہیں۔ یہ باتیں اعلیٰ، وقیع لیکن علامتی ہیں۔ نوجوان نسل نے جب سے ہوش سنبھالا ہے انہوں نے نواز شریف، بے نظیر اور زرداری کا تام جھام، اللے تللے اور اسراف و تبذیر دیکھی ہے۔ انہوں نے حکمرانوں کے وسیع وعریض محلات اور عیش وعشرت دیکھی ہے۔ ایسے میں انہیں عمران کی باتوں میں تبدیلی کی عظیم لہر اور انقلاب کروٹ لیتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ باتیں پہلی مرتبہ نہیں کی جارہی ہیں۔ جنرل ضیا الحق اپنی ذاتی زندگی میں سادگی کی علامت تھے۔ ابتدا انہوں نے اس طرح کی تھی کی سائیکل پر آفس جاتے تھے۔ لیکن پھر ان کے عملے نے عرض کی کہ حضور یہ طریقہ پر خطر بھی ہے اور اس پر حفاظتی نکتہ نظر سے اخراجات بھی زیادہ آتے ہیں۔ چند ہی ہفتوں میں پھر وہی ضیا الحق تھے اور پروٹو کول گاڑیوں کے طویل بیڑے۔ حکمران بڑی سادگی سے اور انقلابی جذبات لیے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ وزیراعظم کی جھنڈا لگی کار میں بیٹھتے اور ہوٹر کی تیزآواز میں ہٹو بچو کی آوازوں کے جلو میں چالیس چالیس پچاس پچاس کاروں کے قافلے میں سفر کرنا شروع کرتے ہیں ان کی گردن میں سریا آنا اور دماغ عرش پر پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔ تب معمولی معمولی باتوں پر ان کے تکبر کا ناریل چٹخنے لگتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں وہ ایسے مد ہوش ہوتے ہیں کہ انہیں نہ عوام کی خبر رہتی ہے اور نہ ہی اپنے آدرش اور مقاصد یاد رہتے ہیں۔ ایک مخمور فضا اور طاقت کا نشہ ان کا احاطہ کرلیتا ہے یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے جب عوام اقتدار کے ایوانوں سے کھینچ نکال کر ان کا گوشت نوچ لیتے ہیں۔ مختار مسعود نے آواز دوست میں حکمرانوں کی اس حالت کو کیا عمدہ تمثیل سے بیا ن کیا ہے ملاحظہ کیجیے:
’’اہل اقتدار کا ذکر ہو تو مجھے بے اختیار کو بے بیف یاد آجاتا ہے۔ کوبے جاپان کا مشہور شہر ہے۔ جہاں سے بڑا گوشت سوغات کے طور پر دساور (دوسرے ممالک) بھیجا جاتا ہے۔ یہ گوشت اس بیل کا ہوتا ہے جسے پیدائش سے لے کر ذبح ہونے تک پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جاتا۔ اس کی پرورش بڑے اہتمام سے ہوتی ہے۔ دودھ چھڑاتے ہیں تو شراب پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ تمام عمر پانی کے بجائے شراب پیتا ہے۔ اس کی بدمستی قابل دید ہوتی ہے۔ بہکی بہکی نظر، بوجھل بوجھل پلکیں، ڈگمگاتے قدم۔ پینے والے اس پر رشک کرتے ہیں اور کھانے والے اسے دیکھ کر منہ میں پانی بھرلاتے ہیں۔ یہ بیل کب تک خیر مناتا ہے بالآخر ذبح کیا جاتا ہے اور اس کے پارچے خوش خوراکوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اہل اقتدار کی صورت حال اور قسمت بسا اوقات اس بیل کی طرح ہوتی ہے اقتدار کی کرسی، اختیار کا نشہ، قوت کا غرور ان کے رگ وپے میں سما جاتا ہے۔ عقل اور آنکھوں دونوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ ان کے چرچے بھی ہوتے ہیں اور کم نظر ان پر رشک بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ مقررہ وقت آن لگتا ہے ان کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور لوگ ہیں کہ ان کی بوٹیاں نوچ لیتے ہیں۔‘‘