پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کرنے والے یورپی یونین کے مبصرین اور انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن نے اپنی رپورٹیں پیش کردی ہیں لیکن ان رپورٹوں میں تضاد بھی ہے اور گنجلک بھی ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی ان میں سے اپنی پسند کا مطلب نکال سکتا ہے۔ ان رپورٹوں کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی خبروں کا حصہ بنایا ہے۔ یورپی مبصرین کی رپورٹ ہے کہ 2018ء کے انتخابات 2013ء کے انتخابات سے بہتر نہیں تھے۔ فافن کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں یہ انتخابات پرامن رہے جب کہ اس بار انتخابات سے پہلے ہی کئی خودکش حملے ہوئے جن میں امیدوار بھی جاں بحق ہوگئے۔ مستونگ کا سانحہ نہایت سنگین تھا، یکہ توت پشاور میں بلور خاندان کا ایک اور فرد شہید ہوگیا جو امیدوار بھی تھا۔ کچھ امیدواروں پر فائرنگ بھی کی گئی اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ سب 25جولائی سے پہلے ہوا۔ انتخابات کے دن جن خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں اہم ترین اس تاثر کو تقویت دینا ہے کہ سب جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے گئے بلکہ عمران خان کو بھرپور مواقع دیے گئے۔ غیر جمہوری طاقتوں نے اس کام میں اہم کردار ادا کیا۔ صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ایک جماعت کی جیت کا تاثر پیدا کیا گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف تمام سیاسی جماعتیں توجہ دلاتی رہی ہیں ۔ پولنگ اسٹیشنوں میں سیکورٹی اہلکار خلاف ضابطہ کام کرتے رہے ہیں جب کہ انہیں اندر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان رپورٹوں سے تحریک انصاف کی جیت مزید مشکوک ہو جاتی ہے۔