مڈٹرم انتخابات کی بنیاد رکھ دی گئی

317

ملک میں گیارویں انتخابات کے نتائج آچکے ہیں‘ یا یوں کہہ لیں نتائج سنائے جاچکے ہیں‘ دونوں جملوں میں بظاہر تو کوئی فرق نہیں لیکن دونوں جملوں کی کیمسٹری مختلف ہے اتنی ہی مختلف جتنی نتیجہ آنے اور لانے میں فرق ہے بہر حال اس بحث سے اب باہر نکل آنا چاہیے اور آگے دیکھنے کی ضرورت ہے‘ سیاسی جماعتیں جائزہ لیں کہ غلطی کہاں ہوئی‘ ہمارے ہاں ایک روایت چلی آرہی ہے کہ جس خرابی کو دور کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے وہی خرابی نئی شکل میں ہر بار سامنے آجاتی ہے۔ 58/2/b کو دیکھ لیں‘ جب اسے آئین میں شامل کیا گیا تو اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ سیفٹی والو و ہوگا‘ کہ جب یہ نہیں تھا تو کہا گیا کہ کہ صدر بے بس ہوتا ہے لہٰذا خرابی دور کرنے کے لیے صدر کو بااختیار بنایا جائے اور اس کے ہاتھ میں ایک ایسا اختیار ہو جو وزیر اعظم اور پارلیمنٹ پر نظر رکھ سکے اور اسے خرابی سے بچاتا رہے لیکن کیا ہوا؟ پہلے ضیاء الحق نے اپنایا اور جونیجو حکومت برطرف کردی‘ پھر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو حکومت برطرف کردی‘ اس کے بعد لغاری آئے وہ ایک جمہوری اور سیاسی کارکن تھے لیکن صدر بن جانے کے بعد انہیں خیال آیا کہ آرٹیکل 58/2/b کا پتا کریں کہیں اس کو زنگ تو نہیں لگ گیا‘ جب معلوم کیا تو فوراً اسے استعمال میں لائے اور ایک بار پھر بے نظیر بھٹو حکومت برطرف ہوئی‘ پھر ملک میں نگران حکومت بنی‘ معراج خالد اس کے سربراہ بنائے گئے‘ اعلان ہوا کہ کوئی کرپٹ سیاسی رہنماء‘ جس نے قرضے معاف کرائے ہوں اسمبلی میں نہیں آنے دیا جائے گا‘ بہت اچھا اعلان تھا‘ مگر تین روز بعد ہی خبر آگئی کہ نگران وزیر قانون فخر الدین جی براہیم مستعفی ہوگئے ہیں پتا چلا کہ انہیں ایسا قانون لانے سے روک دیا گیا‘ بس پھر کیا تھا انتخابات ہوئے نواز شریف دو تہائی اکثریت سے اسمبلی میں پہنچے‘ سب سے پہلے 58/2/b ختم کیا اور سوچا کہ محفوظ رہیں گے‘ لیکن اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف آگئے‘ نواز شریف نے عدالت عظمیٰ میں حکومت کی برطرفی کے خلاف رٹ کی‘ خالد انور کو اپنا وکیل کھڑا کیا گیا‘ لیکن پھر کیا ہوا‘ ظفر علی شاہ درمیان سے نکلے اور ایک رٹ دائر کردی کہ عبوری ریلیف دیا جائے پھر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ کیا کہ خالد انور کے بجائے ظفر علی شاہ کی بات سن لی جائے‘ اسی رٹ پر فیصلہ دیا کہ انتخابات تین سال کے بعد ہوں گے اور حکومت کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار ہوگا۔ خالد انور کی ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ حال ہی میں جب پاناما کیس شروع ہوا تو نواز شریف نے ایک بار پھر خالد انور سے رابطہ کیا اور انہیں کیس کی پیروی کرنے کی درخواست کی‘ ان کی طر ف سے جواب ملا کہ اب کوئی فائدہ نہیں‘ انہیں علم تھا جو فیصلہ سنایا جانا ہے وہ لکھا جاچکا ہے۔
حالیہ انتخابات میں کیا ہوا؟ ہمیں کچھ علم نہیں‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ حلقوں میں پندرہ ہزار ووٹ بھی مسترد ہوئے‘ اور یورپی یونین کے مبصرین نے رپورٹ دی کہ انتخابات شفاف ہوئے‘ گزشتہ عام انتخابات میں ایک مقامی این جی او نے انتخابات میں غیر شفافیت کی نشان دہی کی تھی اس بار اس نے بھی کہہ دیا کہ انتخابات شفاف ہوئے کیوں کہ گزشتہ رپورٹ کے بعد اس کے فنڈز روک لیے گئے تھے‘ ہمارے ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے یورپی یونین اور دیگر غیر ملکی ادارے این جی اوز کو فنڈز دیتے ہیں‘ اور الیکشن کمیشن بھی کسی حد تک ان سے تعاون لیتا ہے‘ اس تعاون کے سر پر ایک تلوار بھی لٹکی ہوئی ہوتی ہے اب نوازشریف کہتے ہیں کہ الیکشن چوری کر لیے گئے ہیں، یہی بات گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان نے کہی تھی۔ ان دنوں کو علم ہے کہ انتخابات کیسے چوری ہوتے ہیں۔
نواز شریف کہتے ہیں کہ خیبر پی کے میں بدترین کارکردگی کے باوجود عمران کو جتایا گیا انتخابات کی ساکھ پر سیاسی پارٹیاں اس وجہ سے بھی شکوک ظاہر کر رہی ہیں چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے بھی نئے آر ٹی ایس سسٹم کی ناقص کارکردگی کو تاخیر کی وجہ قرار دیا ہے‘ اس سسٹم کے بارے میں انہوں نے کچھ وضاحت کردی لیکن ایبٹ آباد میں جس طرح حلقہ بندیاں کی گئی ہیں‘ اس بارے میں وہ کبھی بھی وضاحت پیش نہیں کر سکیں گے‘ نئے سسٹم کو فول پروف بنانے اور متبادل سسٹم کا بندوبست کرنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھی‘ لیکن انہوں نے یہ ذمے داری کسی اور کے حوالے کردی۔
حزب اختلاف نے انتخابات 2018 کے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کر دیا کل جماعتی کانفرنس میں متفقہ طور پر ازسرنو نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا گیا اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کی تجویز کی اکثریت نے حمایت کردی، احتجاجی تحریک چلانے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے حزب اختلاف نے انتباہ کیا ہے کہ دیکھتے ہیں کون پارلیمینٹ میں داخل ہوتا ہے اور یہ کس طرح ایوان چلاتے ہیں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے جمہوریت کی آزادی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد کے محرک مولانا فضل الرحمان نے یہ بھی سنگین الزام عائد کر دیا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے پریزائیڈنگ افسران کو یرغمال بنا لیا تھا شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد اور تحریک کو راستے میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ جب اے آر ڈی نے انتخابات کے بائی کاٹ کا فیصلہ کیا تھا مسلم لیگ(ن) نے اس وقت بھی یہی کہا تھا مگر پھر راستے میں چھوڑ گئی تھی اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کی تجویز بھی آئی ہے لگتا ہے یہی مسلم لیگ (ن) کا احتجاج ہوگا رہ گئی بات مولانا فضل الرحمان کی‘ وہ بھی کچھ فیصلے کیے بیٹھے ہیں جوں جوں وقت آئے گا وہ اپنے فیصلے پٹاری سے باہر نکالتے رہیں گے اور جماعت اسلامی ہر کمیٹی کی رکن بنتی رہے گی مگر فیصلے کہیں اور ہو رہے ہوں گے مسلم لیگ (ن) کا فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ تحریک انصاف کیسے جیتی اس پر ہارون رشید کہتے ہیں کہ ملک میں انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کہ جو ہوا انہیں انتخابات نہیں کہتے۔