چین کے تعاون سے مدینے جیسی ریاست

833

اب جب کہ عمران خان کا انتخاب کرلیا گیا ہے اور وہ ملک کے ممکنہ وزیراعظم ہیں، خوش گمانیوں اور اعتبار کو الگ رکھ کر ان کے الفاظ اور اعمال کو حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ پاکستان کو جن عظیم دشواریوں کا سامنا ہے، جو مسائل درپیش ہیں، ان کی طرف عدم توجہ اور عدم التفات اس کے آج اور کل کے لیے عظیم سانحات اور پریشانیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ عمران خان نے ان دشواریوں اور مسائل کے جو حل تجویز کیے ہیں، دیکھا جائے گا کہ وہ محض نعرے اور خواہشات ہیں یا ان کے پیچھے سنجیدگی، تعلیمی اور مطالعاتی وسعت، کشادہ اور جامع تیاری بھی ہے یا نہیں۔ عمران پاکستان کو مدینے جیسی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں تو یہ روشن مستقبل کی نوید، تازہ فکر، نئے نظام اور جہان دیگر کی ایک ایسی آرزو ہے کہ اس کے تصور سے ہی دل شاداں وفرحاں ہوجاتے ہیں لیکن اگلے ہی لمحے جب وہ چین اور اسکنڈے نیوین ممالک کی ترقی کی مثال دیتے ہیں اور چین سے ترقی کے اسباق سیکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے نعرے اور دعوے سطحی، پریشان خیالی کا شکار اور فریب پر مبنی نظر آنے لگتے ہیں۔ ان تمام ممالک میں اسلامی احکامات سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔ چین تو سرے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا منکر ہے جب کہ مغربی اور اسکنڈے نیوین ممالک سیکولر، لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام پر عمل کرتے ہیں۔ کیا عمران خان یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم چین اور اسکنڈے نیوین ممالک سے نظام مصطفی کا تجربہ حاصل کریں گے۔ نہیں جناب نہیں۔ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کے لیے آپ کو چین اور اسکنڈے نیوین ممالک کی طرف نہیں، قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، جس کا آپ نے پوری تقریر میں کہیں حوالہ نہیں دیا۔
ریاست مدینہ تاریخ کا واہمہ یا کوئی تصوراتی ریاست نہیں ہے۔ عالی مرتبت مصطفی محمد ؐ کی مدینہ آمد کے ساتھ ہی اس ریاست کا آغاز ہوا جس میں مسلمان اور ریاست اپنے تما م اعمال کو اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے مطابق بجالاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کے ذریعے تمام معاملات منظم کیے جاتے تھے۔ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہر لحاظ سے اسلام کے ساتھ مربوط ہیں جس میں ان کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں۔ اسلام کے سوا جو بھی نظام ہیں وہ سب فاسد ہیں خواہ چین ان کے ذریعے ترقی کررہا ہو یا پورا مغرب۔ ریاست مدینہ میں ہر فیصلہ، ہر کام، ہر ترقی اور ہر منصوبے کا فیصلہ اسلام سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ مدینے جیسی ریاست میں زندگی کے ہر شعبے میں اقتدار اعلیٰ یعنی حکم صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کا نافذ ہوتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حکمرانی، معیشت، عدلیہ اور خارجہ امور سے ہو یا تعلیم اور معاشرتی معاملات سے۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں اعلان کرنا ہوگی کہ پاکستان میں تمام قوانین صرف اور صرف قرآن وسنت سے اخذ کیے جائیں گے۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چا ہتے ہیں تو انہیں تمام غیر اسلامی ٹیکس مثلاً جی ایس ٹی، انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کے خا تمے اور اسلامی ٹیکس جیسا کہ خراج، عشر، رکاز، زکوۃ اور جزیہ کے نفاذ کا اعلان کرنا ہوگا۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چا ہتے ہیں تو انہیں تمام معدنی ذخائر، تیل، بجلی اور گیس کو عوامی ملکیت قرار دینا ہوگا۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کے خاتمے کا اعلان کرنا ہوگا اور ایسی عدلیہ تشکیل دینا ہوگی جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے صرف اور صرف قرآن وسنت کی بنیاد پر فیصلے کرے۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ جس زمین کا کوئی مالک نہیں ہے تو جو اس پر باڑھ لگا کر کاشت کاری کرے گا وہ اس کی ہوجائے گی۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ جس کسی نے زرعی زمین تین سال تک استعمال نہیں کی وہ اس سے چھین لی جائے گی۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ غیر ملکی قرضے نہیں لیے جائیں گے کیوں کہ ان قرضوں کی وجہ سے ملک بتدریج امریکا، مغرب اور دیگر ممالک کے غلبے میں چلاجاتا ہے اور اس کی آزاد حیثیت گروی رکھ دی جاتی ہے۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں امریکا کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا ہوگا اور بھارت سے تعلقات سے گریزکرنا ہوگا۔ امریکا اور بھارت اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے: اے ایمان والو! یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انھی میں سے ہوگا بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (المائدہ:51)۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں امریکا کی سپلائی لائن منقطع کرنا ہوگی اور ایسے اقدام اٹھانے ہوں گے کہ امریکا کو خطے سے نکلنا پڑے۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں کشمیر کے مسلمانوں کی بھارت کے خلاف مدد کرنا ہوگی۔ بھارت کے خلاف جہاد میں ان کا ساتھ دینا ہوگا اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنا ہوگا۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ اسلامی شخصیات پیدا ہوسکیں۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں ہر شعبہ حیات سے سود کے خاتمے کا اعلان کرنا ہوگا۔ سودی بینکنگ کو ختم کرنا ہوگا۔ سود اللہ سبحانہ تعالی اور آقا ختم المرسلین ي سے جنگ کے مترادف ہے۔
* مدینے جیسی ریاست نہ تو سیکو لر ہوسکتی ہے اور نہ لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامل۔
*اگر عمران خان مدینے جیسی ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں تو انہیں کاغذی کرنسی کے بجائے سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد بنانا ہوگا۔
اسلام میں سیاست کا مطلب امت کے امور کی نگہبانی ہے۔ امت کے امور کیا ہیں، اول: زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کا نفاذ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں اختیار دیں تو نماز پڑھیں اور زکوۃ ادا کریں نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج: 41) دوم: دین اسلام کو دعوت اور جہاد کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانا۔ مدینے جیسی ریاست کی تشکیل کے لیے چین اور اسکنڈے نیوین سے نہیں قرآن وسنت سے ہدایت لینی ہوگی۔ عمران خان اگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اس راہ میں آنے والی ہر دیوار کو بزور گرانا ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرسکے تو تاریخ کے دھاروں کو بدل دیں گے۔ اگر یہ سب کچھ محض انتخابی نعرہ اور خلق کو فریب دینے کے لیے کیا جارہا ہے تو ان کے زوال اور انحطاط کی رفتار بہت تیز ہوگی۔