اپنا گھر ٹھیک کرنے میں ناکامی

238

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے افسردگی کے ساتھ کہاہے کہ میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کرسکا ہم نیچے گئے ہیں۔ ایمانداری پر سمجھوتا ہونے لگا ہے۔ نا اہلی آگئی ہے، غلطیاں تسلیم کرنا ضروری ہے۔ جج کو گھر جاکر بھی احساس ہو کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے تو اسے درست کرلے۔ جب تک خود انصاف نہ کرلیں انصاف نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے یہ باتیں عدلیہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہیں اور کہا کہ آپ تالیاں نہیں بجائیں گے کیونکہ میں نے آپ کو آپ کا چہرہ دکھایا ہے۔ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کیونکہ وہ عدالتی افسران اور پورے عدالتی نظام کا چہرہ دکھارہے تھے۔ یقیناًاس آئینے میں موجودہ چیف کا چہرہ بھی تھا جو انہوں نے خود بھی دیکھا اور اسی پر تاسف کا اظہار کررہے تھے۔ چیف جسٹس نے ملکی نظام کے تضادات کا بھی حوالہ دیا کہ اب تک ہم پٹواری کے محتاج ہیں جدید تقاضوں کے مطابق نظام بنانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے ججز میں جذبہ، لگن اور وژن کی ضرورت پر زور دیا۔ کام کو عبادت سمجھنے اور مغفرت کا ذریعہ سمجھنے پر بھی زور دیا۔ پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں عدلیہ نے بہت سارے غلط کاموں کو سند جواز بخشی اور جس کا تذکرہ گزشتہ دنوں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی کیا کہ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد زندہ ہوجاتا ہے۔ یقیناًچیف جسٹس بھی اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ جسٹس شوکت عزیز کے معاملے میں عدلیہ کے اندر اختلافات اور دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہے۔ معاملہ ایک جج کا نہیں ان کے سر عام بیان کا بھی نہیں یہ باتیں یا اس طرح کی باتیں تو مختلف حلقوں سے پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن اس بنیاد پر نوٹس لینے اور اب دوسرے مقدمات چلنے سے جو بے چینی پیدا ہوگی وہ بھی عدالتی نظام کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ اپنا گھر ٹھیک کرنے کا عزم بہت اچھا ہے اگر عدالتیں ٹھیک ہوگئیں، ججز اپنی آخرت کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے لگے، گھر جاکر غلطی کا احساس ہونے پر غلطی کی اصلاح کرنے لگے تو پھر اس ملک کو کسی تبدیلی کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ تاریخی جملہ ہر ایک کو یاد رہے گا کہ عدالتیں کام کررہی ہیں ناں۔ تو پھر کچھ نہیں بگڑے گا۔ یہ خواہش عمران خان کی بھی ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کرلیں۔ چیف جسٹس نے تو عدلیہ کی اصلاح کے لیے ایک روڈ میپ بھی دے دیا کہ ججز کس طرح اصلاح کریں کس طرح فیصلے دیں اور دنیا سے زیادہ آخرت کو مد نظر رکھیں لیکن عمران خان نے تبدیلی کے لیے اپنا گھر الیکٹ ایبلز کے نام پر ریجیکٹ ایبلز سے بھی بھرلیا۔ انہیں تو دو قسم کی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ایک ملکی نظام میں دوسری اپنے گھر میں۔ اگرچہ عدلیہ میں تبدیلیوں سے عمران خان کا تعلق نہیں تھا لیکن چونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ حکومت بنانے والے ہیں تو چیف جسٹس کی باتیں انہیں بھی سننی اور گرہ سے باندھنی چاہئیں کیونکہ اگر وہ حکومت بناتے ہیں تو قانون سازی ان کی پارٹی کرے گی اسے بھی آخرت کو مد نظر رکھنا ہوگا۔کیا ایلکٹ ایبلز اور ریجیکٹ ایبلز یہ کام کرسکیں گے وہ تو دنیا کو مد نظر رکھ کر پارٹیاں بدلتے ہیں۔