الیکشن کمیشن کو اختیار دینے پر افسوس کیوں؟

253

انتخابات 2018ء کے بعد مسلم لیگ ن بڑی سخت مشکل میں ہے۔ اسے ایک جانب اپنے لیڈر کو بچانا ہے دوسری جانب ساکھ بچانی ہے۔ آگے کی جد وجہد کرنی ہے۔ لیکن جس بات پر ن لیگ کے رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے وہ خود قابل افسوس ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن کو زیادہ با اختیار بناکر غلطی کی۔ لیکن شکایت کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا اس لیے مستعفی ہوجائیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہاکہ چیف لیکشن کمشنر تو پانچ بجے تک انتظار کرکے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے جو کچھ کہا اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ رسی جل گئی بل نہیں گئے۔ ارے اگر آپ نے الیکشن کمیشن کو با اختیار بنایا تھا تو غلط تو نہیں کیا تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کو اختیارات دیتے وقت اسے کچھ اصولوں کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ ان اختیارات کو اصولوں کے مطابق استعمال کررہا ہے یا نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت تو الیکشن کمیشن کو یہ اختیارات بھی دینے کو تیار نہیں تھی اس میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔ اگرچہ عمران خان اس وقت اسمبلی سے باہر دھرنے دے رہے تھے لیکن الیکشن کمیشن سے متعلق مشاورت میں شریک رہے۔ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کا دباؤ تھا جس نے الیکشن کمیشن کو یہ لولے لنگڑے اختیارات دیے تھے۔ پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو جتنے بھی اختیارات حاصل ہیں وہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں دیے گئے۔ تاہم جس طرح مسلم لیگ ن کے رہنما اپنے لیے مادر پدر آزادی اور شطر بے مہار اختیارات چاہتے تھے اگر الیکشن کمیشن کو اس قسم کا کوئی اختیار مل گیا ہے تو شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس میں کوئی سقم ہے تو اسمبلی میں جاکر اسے دور کریں۔ اختیارات تو منتظم اعلیٰ (وزیراعظم) یا صدر مملکت اور مسلح افواج کے سربراہ بھی رکھتے ہیں لیکن سب کسی نہ کسی اصول اور ضابطے کے ماتحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ اگر ن لیگ کو الیکشن کمیشن کے کسی اختیار پر اعتراض ہے تو اس کو پارلیمنٹ کے ذریعے رفع کرے۔ لیکن ملاقات کے لیے وقت نہ دینا یا ملاقات نہ کرنا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر افسوس کیا جائے۔ البتہ الیکشن کمیشن کے سامنے جو سوالات ہیں ان کا جواب اس کے اختیارات سے تعلق نہیں رکھتا۔ آرٹی ایس اگر بیٹھ گیا ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے اور اس امر کی تحقیقات کون کرے گا کہ آر ٹی ایس بیٹھا تھا یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فارم 45 پر نتائج پولنگ ایجنٹس کو کیوں نہیں دیے گئے۔ ملک بھر میں پولنگ ایجنٹس کو گنتی سے پہلے، دوران اور فوراً بعد کیوں نکالا گیااور کس نے نکالا۔ پولنگ افسران نے ایجنٹوں کو نتیجہ کیوں نہیں دیا۔ اگر اگر آر ٹی ایس ناکام ہوگیا تو اس کا سبب کون ہے۔ ویسے اطلاعات یہی ہیں کہ سسٹم بیٹھا نہیں تھا بلکہ پولنگ اسٹیشنوں سے نتیجہ بھیجے جانے کے بعد منظوری کا پیغام ہی نہیں ملا اور عملہ سامان لپیٹ کر چلاگیا۔ تحقیقات تو نتائج میں تاخیر کی ہونی اہیے کہ وہ کہاں ہوئی کیا الیکشن کمیشن فارم 45 پر نتیجہ دیے بغیر پولنگ افسران کو جانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ اگر یہ اختیارات پولنگ کے عملے کوتھے تو پھر افسوس کیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن کمیشن پر نہیں اسے یہ اختیارات دینے والوں پر کہ ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کس کو کیا اختیارات دے رہے ہیں یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد کرنے کا اختیار صوابدیدی ہے یا کسی اصول کے مطابق یہ فیصلے کیے جانے تھے فی الحال تو معاملات عجیب لگ رہے ہیں کہیں حلقہ نہیں کھولا محض مسترد ووٹ کھولے گئے تو سعد رفیق کے ووٹ بڑھ گئے۔ یقیناًایسے میں حلقہ کھولنا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ فرق اب ہزاروں میں نہیں چند سو کا رہ گیا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن یہ جواب نہیں دے سکا کہ اسے اور اس کے افسران کو کس نے فارم 45 جاری کرنے سے روکا۔ کیونکہ ان کا تو دعویٰ ہے کہ ہر جگہ فارم 45 فراہم کردیے گئے تھے تو پھر کس نے روکا۔ مسلم لیگ ن بھی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات نہ ہونے پر قلق کے بجائے معاملات کی اصلاح کی جانب توجہ دے۔