امریکی بدمعاشی کو لگام دینے کی ضرورت

202

مشرق وسطیٰ سے بار بار یہ خبریں آرہی ہیں کہ امریکا بہر صورت انتشار اور جنگ کی کیفیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایک روز یہ خبر آئی کہ آئندہ ماہ امریکا ایران پر حملہ کردے گا۔ اگلے دن ترکی کو دھمکیاں دی گئیں۔ ایران اور ترکی دونوں نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ دھمکیوں سے باز رہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے تو بہت واضح بات کی ہے کہ امریکا کی جانب سے ترکی پر پابندیوں کی دھمکیاں ہمارے فیصلے تبدیل نہیں کرسکتیں۔ ترک حکومت نے حال ہی میں ایک عدالت کے حکم پر امریکی پادری کو نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو دو سال قبل کی ناکام فوجی بغاوت میں معاونت کے شبہے میں مقدمے میں ملوث ہے۔ امریکی حکام اس پادری کو رہا کرانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو کسی بھی ملک کی خود مختاری سے متعلق ہے۔ اگر امریکی حکام ترکی میں فوجی بغاوت میں ملوث شخص کی رہائی کے لیے ترکی پر پابندیوں کی بات کررہے ہیں تو یہ اصولی طور پر بھی غلط ہے اور کسی ملک کے معاملات میں امریکی مداخلت کے ثبوت کے مترادف ہے۔ ترکی کے حکمران دو برس قبل ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے نہایت سخت موقف رکھتے ہیں اور اس کا مطالبہ امریکا سے ہے کہ اس بغاوت کے اہم کردار فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے۔ لیکن سابق امریکی حکمران اور موجودہ جنونی غیر سنجیدہ حکمران ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حوالے سے خاموش ہیں۔ اگر امریکا فتح اللہ گولن کو حوالے نہیں کررہا تو بغاوت میں ملوث پادری کی رہائی کے لیے کیوں دھمکیاں دے رہا ہے۔