انتخابی نتائج پر سوالات، جواب کون دے گا؟

262

عام انتخابات کے انعقاد کے بعد جو باتیں کی جارہی ہیں وہ کوئی نئی نہیں ہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ہارنے والے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں اور کامیاب ہونے والے ان الزامات کو نظر انداز یا مسترد کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار، پہلی بار یہ نیا ہوا ہے کہ کامیاب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہیں توقع ہے کہ یہ صرف اعلان تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس پر عمل بھی ہوگا۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہمیشہ ہی عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے ’’مخصوص کردار‘‘ کے ساتھ اس کی ’’نیک نیتی‘‘ بھی کار فرما رہتی ہے۔ کسی کی نیت پر ہر کوئی شک کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس لیے اس بار بھی انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کی باتیں کی جارہی ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ قوم تبدیلی چاہتی تھی اور عمران خان کے وزیراعظم بننے اور تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے مثبت تبدیلیوں کی توقعات ہے۔ مگر ایم ایم اے کے سربراہ فضل الرحمن کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں ان انتخابات کو مسترد کرنے، انتخابات میں کامیاب ہونے والے ارکان کا حلف نہ اٹھانے اور دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اسی کانفرنس میں شریک مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے منتخب اراکین کے حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کی حمایت کرنے کے بجائے مہلت مانگ لی جب کہ ہفتے کے روز مسلم لیگ نواز نے فیصلہ کیا کہ وہ حلف اٹھائیں گے۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کہ کیا دوبارہ انتخابات کے نتیجے میں مزید کم نشستیں ملیں گی اس لیے اے پی سی کے فیصلوں پر عمل کرنا ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس کانفرنس میں پیپلز پارٹی نے شرکت نہیں کی تھی اور چیئرمین پی پی پی بلاول نتائج قبول نہ کرنے کے باوجود ایوان میں جانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اے پی سی میں کیے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد مشکل ہوجائے گا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں کیا کریں گے کیا اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے یا فوری عمل درآمد کے بجائے ان فیصلوں پر عمل درآمد مؤخر یا ملتوی کیا جائے گا۔
بہرحال انتخابات کے لیے پولنگ کے عمل پر پرامن، آزادانہ اور شفاف ہونے پر شک کرنا غیر مناسب ہے لیکن ان انتخابات کے نتائج چوں کہ تاخیر سے آئے اور ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں نہ کی جانے کی متعدد شکایات ہیں اس لیے نتائج کو غیر مشکوک کہنا بھی درست نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پولنگ کا عمل مجموعی طور پر مثالی تھا مگر نتائج کے اجراء کا عمل بدترین تھا۔ اگر نتائج جلد سے جلد آجائے اور رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) میں خرابی کی اطلاع فوری طور پر الیکشن کی طرف سے دے دی جاتی تو یہ شکوک و شبہات نہیں پیدا ہوتے۔
18 دسمبر 1878 میں پیدا ہونے اور 1920 سے 1953 تک حکمرانی کرنے والے سویت یونین کے انقلابی رہنما جوزف اسٹالن نے انتخابات کے حوالے سے کہا تھا کہ: ’’ووٹ ڈالنے والے لوگ کوئی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ووٹ گننے والے افراد سب کچھ کرتے ہیں‘‘۔ ملک میں حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد سے مجھے جوزف اسٹالن کا یہ قول اس قدر شدت سے یاد آرہا ہے کہ مجھے بھی ’’مثالی شفاف انتخابات‘‘ کے انعقاد پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ووٹوں کی گنتی کرنے والوں اور نتائج بنانے والوں نے ملک کی اس اکثریت کی خواہشات کو مدنظر رکھا جو اقتدار میں اس بار زرداری اور نواز شریف کی پارٹیوں کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کو دیکھنا چاہتی تھی۔ تب ہی چند نہیں بلکہ متعدد حلقوں میں اپنے ووٹرز کی طرف سے من پسند امیدواروں کو ڈالے گئے درست ووٹوں کی تعداد نہیں بتائی جارہی۔ عام ووٹرز حیران ہیں کہ اتنے پرسکون ماحول میں اپنے امیدواروں کو ڈالے گئے ہزاروں ووٹ سیکڑوں بلکہ دھائی میں کیسے بدل گئے؟ الیکشن کمیشن پاکستان کو اس سوال کا جواب دینا تو مشکل ہے مگر کیا کراچی کے علاقے قیوم آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ 241 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ 107 کے مہر لگے بیلٹ پیپرز کی کچرے کے ڈھیر سے برآمدگی پر کچھ جواب دے پائے گا؟ کراچی جو سب سے پڑھا لکھا اور باشعور افراد کا شہر کہلاتا ہے وہاں کے تعلیم یافتہ اور سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے ووٹ بیلٹ باکس میں جانے کے بعد کس طرح کم ہوئے یا ان امیدوار کے حق میں بدل گئے جنہیں انہوں نے ووٹ نہیں دیا تھا؟ اس سوال نے ووٹروں کو بے چین کر کے رکھا ہوا ہے۔ ہے کوئی جو اس سوال کا جواب دے؟۔
کراچی سے مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری کی شکست پر لوگ حیران نہیں ہیں بلکہ ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی کی ہر دل عزیز شخصیات معراج الہدی صدیقی، حافظ نعیم الرحمان، اسامہ رضی، سیف الدین ایڈوکیٹ، زاہد سعید، محمد حسین محنتی اور ان جیسے دیگر کے انتخابات میں ناکام ہونے پر دکھ ہے۔ انہیں یہ یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ ’ایماندارنہ‘‘ گنتی کی وجہ سے ان کے رہنماؤں کو شکست ہوئی ہے۔ یہ حیرانی اور پریشانی ایم ایم اے اور جماعت اسلامی سے باہر کے لوگوں کو بھی ہے کیوں کہ جماعت اسلامی تو کڑی دھوپ میں بھی شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر جدوجہد کرتی رہی۔ اس کے لوگ قتل و غارت کے ماحول میں بھی شہر میں امن و امان بحال کرنے کے لیے امن کا پیغام پھیلانے کے لیے سرگرم رہے اس مقصد کے لیے عدالت تک گئے۔ مگر یہی وہ جماعت اسلامی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بھی کامیابی و ناکامی کو بالائے طاق رکھ کر شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے بلا تفریق بطور عبادت ان کے ساتھ نظر آتی رہے گی اور ان کی مدد کے لیے پیش پیش رہے گی۔