میڈیا کو نتائج کس نے دیے؟

370

ووٹ کی عزت افزائی میں جو قوتیں نادیدہ نہیں تھیں ان میں اولین پاکستان الیکٹرونک میڈیا ہے۔ اس نے کسی کے خوف سے، پیسوں کی وجہ سے یا پورے میڈیا میں مرکزی پوزیشنوں پر بیٹھے دین بیزار اعلیٰ افسران کی وجہ سے انتخابات سے قبل ہی یہ مہم چلا رکھی تھی کہ گویا الیکشن مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہورہا ہے، کہیں کہیں پیپلز پارٹی بھی ہے اور کراچی میں متحدہ اور پی ٹی آئی کا مقابلہ دکھایا جاتا رہا۔ اسی میڈیا نے انتخابی نتائج کی نئی تاریخ مرتب کردی، اس کے پاس ’’سب سے پہلے نتیجہ‘‘ کا دعویٰ تو تھا لیکن یہ نتیجہ کہاں سے آرہا تھا۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن تو 36 گھنٹے سے زیادہ دیر تک انتخابی نتائج دینے میں ناکام رہا۔ پھر ٹی وی چینلوں کو نتائج کہاں سے مل رہے تھے اور یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ جو نتیجہ چیلنج کیا گیا یا اس پر نمائندوں کے پولنگ ایجنٹوں نے آر او کے دفاتر یا ڈی آر او کا گھیراؤ کیا وہ تبدیل ہوگیا۔ ان سطور کے تحریر کرنے تک یہ ابہام موجود تھا کہ نتیجہ کہاں سے میڈیا کو مل رہا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار دو دن تک بلکہ تیسرے دن بھی فلاں فلاں سیٹ پر فلاں فلاں صاحب آگے یا اس کو برتری کی خبر مل رہی تھی جب کہ ملک بھر میں بیشتر مقامات سے پولنگ کا عملہ اپنا سامان 25 اور 26 جولائی کی درمیانی رات 4 بجے تک سمیٹ کر جاچکا تھا تو پھر 26 کو سارا دن کس کی کس سے برتری؟؟۔ اور پھر یہ گنتی کہاں ہورہی تھی۔ یہ اتنا بڑا فراڈ ہے کہ اس پر ہی انتخابی نتائج کالعدم ہوجانے چاہئیں، الیکشن کمیشن اگر سارا سامان سمیٹ کر لے جاچکا تھا تو میڈیا برتری کی قوالی 27 جولائی کی رات تک کیوں گا رہا تھا۔ اس کا نوٹس کون لے گا؟۔
الیکشن کمیشن۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ تو خود اس کا ذمے دار ہے۔ تو کیا نگراں حکومت۔۔۔؟؟ وہ بھی یہ کام نہیں کرسکتی وہ تو انتخابی قواعد میں تبدیلی کررہی ہے یا پی ٹی سی ایل اور اسمارٹ ٹی وی کے چارجز میں اضافہ کررہی ہے۔ تو پھر کیا خلائی مخلوق سے رابطہ کیا جائے۔ اسے تو ناسا والے مریخ پر تلاش کررہے ہیں حالاں کہ نواز شریف سے رابطہ کرلیتے تو پاکستان میں بڑی آسانی سے مل جاتی۔ بہرحال انتخابات 2018ء پاکستان کی تاریخ کے ٹیکنیکل ترین انتخابات نکلے۔ 2013ء کے نتائج اور نتائج سے قبل میاں نواز شریف کا رات 11 بجے جشن منانا اس میں میڈیا کا ساتھ دینا اور پی ٹی آئی کا اعتراض شاید قوم کے ذہنوں سے محو ہوگیا ہو لیکن
یاد دہانی ضروری ہے۔ اس مرتبہ ساڑھے گیارہ بجے جشن دکھایا گیا جب کہ خود میڈیا کے مطابق اس وقت تک 13 فی صد نشستوں پر محض برتری کے نتائج دکھائے جارہے تھے تو پھر جشن کس بات کا۔ اگلے دن بھی عمران خان کے خطاب تک برتری چل رہی تھی۔ بہرحال اب الیکشن کمیشن نے نتائج دینا شروع کردیے آخری وقت تک برتری حاصل رہی تھی ان نتائج کے خلاف متحدہ مجلس عمل نے تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے نتائج کالعدم قرار دینے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ احتجاج میں ساتھ دینے کا اعلان کیا لیکن اسمبلی کی نشستوں کا حلف نہ اٹھانے کو پارٹی کی مشاورت سے مشروط کردیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی نتائج مسترد کیے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ایک موقف کے باوجود ایم ایم اے، پی پی اور مسلم لیگ (ن) الگ الگ جدوجہد کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ابھی تو مشاورتوں کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت اور الیکشن کمیشن کے جواب پر انحصار ہے کہ ان کا رویہ کیا ہے ممکن ہے وہاں سے اب اقدام کیا جائے کہ سب جمہوری عمل میں شرکت پر راضی ہوجائیں لیکن اگر احتجاج اور سڑکوں پر مطالبات کا سلسلہ شروع ہوا تو افسوسناک ہوگا۔ اس کا ذمے دار اسے ہی ٹھیرایا جائے گا جو سڑکوں پر آئے گا لیکن کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ ان کو سڑکوں پر لانے کا ذمے دار کون ہے۔ 2013ء میں عمران نے 120 دن کا دھرنا دیا۔ کینیڈین شہری کے ساتھ مل کر پنجاب اور مرکز کا نظام خراب کیا، پورا نظام پلٹ دیا، ان سے کہا گیا کہ سڑک کے بجائے پارلیمنٹ میں موجود قوتوں کی مدد سے مسائل حل کریں لیکن وہ پارلیمنٹ پر لعنت ہی بھیجتے رہے۔ اب اگر مجلس عمل تنہا بھی سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرتی ہے تو بھی اس کے پاس احتجاج اور دھرنوں والی طاقت عمران خان سے زیادہ ہے۔ ان دھرنوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہوا تھا جب کہ ایم ایم اے میں سارے کارکن رضا کار ہیں۔ ہاں جلسوں، جلوسوں اور اشتہارات پر پیسہ خرچ ہوگا۔ لیکن ملک کا کیا ہوگا؟؟ یہ سوچنا کیا صرف ایم ایم اے کا کام ہے۔ یا ان کو بھی کچھ سوچنا ہوگا جنہوں نے کام دکھایا ہے۔ فی الحال تو ایسا لگ رہا ہے کہ تمام پارٹیاں اسمبلی میں بھی بیٹھیں گی اور احتجاج بھی کریں گی۔ بہرحال معاملات سڑکوں پر جاتے نظر آرہے ہیں۔ اگر سڑکوں پر احتجاج سے نمٹنے میں احتیاط نہ کی گئی تو ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی بھی واقعہ آنے والی حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔
اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن بن بھی گیا تو وہ یہ کیسے معلوم کرے گا کہ آر ٹی ایس کیسے ناکام ہوا۔ فارم 45 تھے یا نہیں۔ بیلٹ پر کس کے حق میں مہر تھی کس کے نام کا نتیجہ دیا گیا۔ کیا دونوں یکساں تھے، یا الگ الگ اور سب سے بڑھ کر میڈیا کو نتیجہ کون دے رہا تھا۔ کیوں کہ دو دن تک برتری، ایسا معاملہ ہے کہ اس کا جواب کسی طور نہیں مل رہا۔ پورے پاکستان سے الیکشن کا عملہ رات 12 بجے سے صبح چار یا چھ بجے تک اپنا سامان سمیٹ کر جاچکا تھا۔ لیکن میڈیا پر 27 جولائی کو بھی برتری برتری۔۔۔ برتری دکھائی جاتی رہی۔