جنابِ اسپیکر کا اظہارِ تاسف

225

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا سے جس کنٹرولڈ جمہوریت نے جنم لیا تھا اس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ دار کلاس آگے آئی تھی۔ اس سرمایہ دار کلاس کو ملکی سیاست میں متعارف کرانے کی وجہ ملکی جاگیرداروں کا کنٹرول کم کرنا تھا جاگیردار طبقہ انگریز کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہی معاشرے میں معزز ومکرم بنا تھا اور سیاست میں بھی اس طبقے کو بالادستی حاصل تھی۔ اس کے برعکس سرمایہ دار خاندان سیاست میں کسی حد تک موجود تھے مگر انہیں قائدانہ کردار حاصل نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی کنٹرولڈ جمہوریت میں سرمایہ دار کلاس پوری قوت سے سیاست میں آئی مگر اس دنیا میں قدم رکھتے ہی وہ بھی جاگیردار ہی ثابت ہوئے۔ جاگیردار ایک زمینی حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک مائنڈ سیٹ کا نام بھی ہوتا ہے جس میں خلق خدا کی حیثیت رینگنے والی مخلوق سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سرمایہ دار کلاس نے بھی سیاست میں جاگیر دارانہ طور طریقے آگے بڑھائے۔ اس نئی تبدیلی سے پنجاب اور کراچی زیادہ متاثر ہوئے۔ پنجاب پہلے ہی جاگیرداری نظام کا مرکز تھا البتہ کراچی ایک شہری علاقہ تھا جہاں مڈل کلاس قومی جماعتوں کی غیر ضروری قطع وبرید کرکے لسانی مڈل کلاس کو آگے کیا گیا۔ پنجاب کا تاجر طبقہ اور کراچی کی لسانی مڈل کلاس دونوں تھوڑا دور چل کر جاگیردارنہ تمکنت کے ساتھ سامنے آتی چلی گئیں۔ یہ ذہنیت اب ہمارے سیاسی اور سماجی نظام میں اندر تک سرایت کر گئی ہے۔ اس ذہنیت کو آزاد اداروں سے خوف محسوس ہوتا ہے اور اسی خوف نے ملک میں آزاد، باوقار اور خود انحصار اداروں کے قیام میں رکاوٹ کھڑی کیے رکھی۔ اسی ذہنیت کا بہترین عکاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا اظہارِ تاسف ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے دفتر کے باہر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو زیادہ بااختیار بنا کر غلطی کی ہے معلوم نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن اس طرح کے انتخابات کرائیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے انہیں ملاقات کے لیے وقت نہیں دیا حالاں کہ وہ اس وقت بھی اسپیکر ہیں۔
الیکشن کمیشن کی حالیہ انتخابات میں کارکردگی پر کئی سوال اُٹھائے جا رہے ہیں اور مزید کئی سوالات کی گنجائش ابھی اور موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں بیانات، اجلاسوں، ٹی وی انٹریوز اور اپنے سوشل میڈیا ونگز کے ذریعے الیکشن کمیشن کے خلاف دل کا غبار پوری قوت سے نکالنے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا تو دنیا میں کہیں بھی وردی پوش فوجی کی چلتی پھرتی تصویر کو پاکستان کے الیکشن سے جوڑ کر پیش کر رہا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ بعض حوالوں سے الیکشن کمیشن تساہل اور غفلت کا مرتکب ہوا ہے بالخصوص آر ٹی ایس سسٹم کا عین کام کے وقت بیٹھ جانا اس ادارے کی اہلیت اور صلاحیت کے آگے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنانے کا کام اس لیے ختم کر دیا جانا چاہیے کہ وہ اچھی اور سریع الحرکت کارروائی نہیں کر سکتے۔
الیکشن کمیشن، قومی احتساب بیور، عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ سب اس ریاست کے ادارے ہیں جو اپنا تفویض کردہ کام کرنے کے پابند ہیں۔ ان اداروں ہی سے حکومت تشکیل پاتی ہے۔ حکومت اگر اُڑنے والا پرندہ ہے تو یہ ادارے اس کے بال وپر میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے پر اظہار تاسف قطعی صحت مندانہ رویہ اور رجحان نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم نے ریاست صرف پارلیمنٹ کا نام رکھ چھوڑا ہے۔ یعنی پارلیمنٹ سے جنم لینے والی مقننہ اور انتظامیہ کا نام ریاست اور حکومت رکھا ہے۔ اسی لیے ہماری قومی نفسیات یہ ہے کہ ہر ادارہ انتظامیہ کے تابع ہے۔ الیکشن کمیشن سے عدلیہ تک تابع مہمل ادارے اور اداروں کے سربراہان ہمارے حکمرانوں کی پسند رہے ہیں۔ ہمیں آزاد عدلیہ، آزاد نیب، آزاد پولیس سے نباہ کرنے کا تجربہ ہی نہیں۔ حقیقی جمہوریت میں اس طرح کے ادارے آزاد ہوتے ہیں۔ یہ ادارے قانون کے تابع ہوتے ہیں اور موسموں کے تغیر وتبدل کے بغیر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو احتساب کا کام چلتا رہتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں کسی حکمران یا بیوروکریٹ کو احتساب کے کٹہرے تک لانے کے لیے پر زور مطالبات اور پر شور احتجاج کرنا پڑتا ہے نہ دھرنوں کے لیے کنٹینر سجانے پڑتے ہیں۔ ان معاشروں میں شکایت میں ملنے کی دیر ہوتی ہے ادارے اپنا کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ آزاد ومختار ادارے جمہوریت کی عمارت کے لیے ستون کا کام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں آزاد اداروں کا تصور ہی مفقود رہا ہے۔ یہاں اداروں ہر منشی بٹھائے جاتے ہیں جو حکمرانوں کے تابع مہمل کا کردار ادا کرکے اداروں کو سیاسی اکھاڑے میں بدل دیتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد کی جمہوریت میں اداروں کے لیے ہماری پسند کا میعار اور آئیڈیل وفا دار، بے ضررپن اور مٹی کا مادھو رہا ہے۔ اس سے ادارے اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنے رہتے ہیں۔ صدر کے لیے رفیق تارڑ، آرمی چیف کے لیے ضیاء الدین بٹ، آئی ایس آئی کے لیے ذوالفقار کلو، عدالت کے لیے جسٹس قیوم، احتساب بیور و کے لیے سیف الرحمان اور قمرالزمان، پی آئی اے دوسرے اداروں میں ایسے ہی نام گزشتہ پچیس سالہ جمہوریت میں ہمارے حسن انتخاب کی کہانی سنار ہے ہیں۔ اس بہتی گنگا میں جنرل مشرف بھی پیچھے نہیں سب کچھ اپنے ہاتھ تلے رکھنے کی خواہش میں انہوں نے ملک اپنے کلاس فیلوز اور گلاس فیلوزکے ذریعے چلایا یوں اس دور میں بھی آزاد اداروں کی بنیادیں نہ ڈالی جا سکیں۔ اب اگر ہم حقیقی جمہوریت اور کرپشن سے آزاد سوسائٹی چاہتے ہیں تو ہمیں سب اداروں کو آزاد اور با اختیار بنانا ہوگا خواہ اس کی زد خود آزادی اور اختیار دینے والے پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
ریاستیں لمحہ موجود کا کھیل نہیں ہوتیں بلکہ آنے والی نسلوں اور زمانوں سے جڑی اور محیط ہوتی ہیں۔ کسی وقتی واقعے سے اداروں کی آزادی اور اختیار پر تاسف کا اظہا کرنے کے بجائے یہ اصولی موقف اپنانا چاہیے کہ ملک میں جمہوریت کی بقا آزاد اداروں کے قیام میں ہے۔