ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پچھلے دنوں ٹیلی فون پر پاکستان کے حالیہ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرنے پر مبارک باد پیش کی ہے۔ ہندوستان کی وزارتِ غیر ملکی امور کے مطابق مودی نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنے انداز فکر کا ذکر کیا اور توقع ظاہر کی کہ پاکستان میں جمہوریت، گہری جڑیں پکڑے گی۔
تحریک انصاف کی طرف سے مودی اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فون گفتگو کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ مودی کا کہنا تھا کہ یہ نئے دور کا آغاز ہے جس میں باہمی تعلقات کے سلسلے میں مشترکہ حکمت عملی کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کے بیان کے مطابق، عمران خان نے اس موقع پر زور دیا کہ باہمی تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ مودی سے ٹیلی فونک گفتگو میں عمران خان نے کشمیر کے مسئلے کا ذکر نہیں کیا البتہ انہوں نے انتخابی جیت کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں زور دیا تھا کہ کشمیر بنیادی تنازع ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ نریندر مودی نے عمران خان کو انتخابی فتح کے دو دن بعد مبارک باد پیش کی تھی۔ اس تاخیر کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن 2013 میں اُس زمانہ کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے نواز شریف کو ان کی جیت کے فوراً بعد مبارک باد پیش کی تھی۔ وہ مبصر جن کی ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے نشیب و فراز پر گہری نگاہ ہے ان کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی مبارک باد سے بے دلی، برخاستہ خاطر اور بے اعتنائی عیاں ہے۔ ایسا ہی منظر ساری دنیا 2014 میں ہندوستان کے عام انتخابات میں مودی کی جیت کے بعد دیکھ چکے ہیں جب مودی نے تخت دلی کے بادشاہ کی طرح اپنی حلف برداری کی تقریب پر دربار سجایا تھا اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو اس میں شرکت کی دعوت دی تھی اور تقریب کے بعد مودی نے نواز شریف سے ملاقات میں نئے دور کی بشارت دی تھی۔ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی اور دوستی کے دور کے آغاز کے بجائے پاکستان کے ساتھ شدید معرکہ آرائی اور پاکستان کو محاصرے میں جکڑنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔
نریندر مودی نے بر سر اقتدار آنے کے فوراً بعد، پاکستان کا محاصرہ کرنے اور سفارتی طور پر تنہا کرنے کے لیے جو نہایت منظم جارحانہ پالیسی، اختیار کی اس کی شروعات انہوں نے، کشمیر میں حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد پر پردہ ڈالنے کے لیے سرحد پار پاکستان سے دہشت گردی کا شور مچا کر کی تھی۔ اس دوران کشمیر کے عوام کو جس ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے دس سال پہلے اتنا تشدد نہیں بھڑکا تھا۔ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے مودی نے پاکستان سے دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا اور 2016 میں اسلام آباد میں سارک کی سربراہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا ڈراما رچایا تھا جس میں بنگلا دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان کو بھی دباؤ ڈال کر شریک کیاگیا۔ پھر مشرق میں سارک کے مقابلہ میں BIMSTEC کا محاذ قائم کیا تھا جس میں ہندوستان کے ساتھ بنگلا دیش، برما، سری لنکا، تھائی لینڈ، بھوٹان اور نیپال کو شامل کیا گیا تھا۔
نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے جو کئی سال تک پاکستان میں جاسوس کی حیثیت سے سرگرم رہے تھے کھلم کھلا اس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان ممبئی میں دہشت گرد حملہ کر سکتا ہے تو اسے بلوچستان اپنے ہاتھ سے گنوانے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اسی کے بعد بلوچستان میں ہندوستان کے را کے جاسوس کلبھو شن یادو کی گرفتاری اور ان سرگرمیوں کا انکشاف ہوا تھا جن کا مقصد بلوچستان اور کراچی میں بڑے پیمانے پر عدم استحکام بھڑکانا تھا۔
پھر پاکستان کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کے مشن پر نریندر مودی نے مغرب میں بڑے پیمانے پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور اسرائیل کے دوروں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ سعودی عرب پر انہوں نے خاص طور پر زور دیا تھا دراصل وہ ہندوستان کے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ وہ مسلم ممالک کے حکمرانوں میں کس قدر مقبول ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ گجرات کے مسلم کُش فسادات کا ان کے دامن پر جو داغ لگا ہے مسلم حکمرانوں نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ نریندر مودی اس سلسلے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا اعزاز عبد العزیز ایوارڈ ہندوستان کے عوام اور مسلمانوں کو دکھایا جو سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان نے انہیں ریاض کی شاہی تقریب میں پیش کیا تھا۔
نریندر مودی نے پاکستان کا محاصرہ کرنے کے لیے عُمان کے امیر سلطان قابوس سے طویل بات چیت کے بعد آٹھ سمجھوتے کیے، جن کے تحت، ہندوستان کے بحری جہازوں کو عُمان کی بندرگاہ الدقم میں لنگر انداز ہونے اور خشک گودی کی تمام تر سہولتیں حاصل ہوں گی۔ نہایت فوجی اہمیت کی الدقم کی بندرگاہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر کے عین سامنے ہے، صرف 436میل کے فاصلہ پر۔ الدقم کی بندرگاہ کے راستے ہندوستان کی بحریہ کے لیے مشرق وسطی اور مشرقی افریقا میں داخلہ کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہندوستان کی فضائیہ کو بھی الدقم کے ہوائی اڈے پر تمام سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ یہ ہوائی اڈہ، ممبئی سے صرف چالیس منٹ کی پرواز پر ہے۔ان سمجھوتوں کے تحت ہندوستان، عُمان کی افواج کو تربیت دے گا اور عُمان میں ہندوستان اسلحہ سازی میں بھی مدد دے گا۔ ان تمام سہولتوں کے عوض ہندوستان نے عُمان کو اپنے تیل کے ذخائر میں شرکت اور معدنیات کی کان کنی میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔
دفاعی مبصرین کی رائے میں نئے دفاعی سمجھوتوں کی بدولت عُمان کی الدقم کی بندرگاہ نہ صرف پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ کے عین سامنے ہندوستان کے بحری مورچہ کے طور پر ابھرے گی بلکہ اس کا مقصد بحر ہند اور بحیرہ عرب میں چین کے بحری اثر کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ الدقم کی بندرگاہ سے گوادر کے آس پاس چین کی آبدوزوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا سکے گی۔ ہندوستان کی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارُن پرکاش کا کہنا ہے کہ چین نے برما سے پاکستان تک سمندر میں ہندوستان کے خلاف پیر جما لیے ہیں جس کے پیش نظر جوابی اقدام لازمی ہے۔
الدقم کے ہوائی اڈے پر ہندوستان کی فضائیہ کی سہولتوں کے بعد عُمان بحیرہ عرب میں ہندوستان کا ایک مضبوط بحری اور فضائی اڈہ بن جائے گا۔ ہندوستان اور عُمان نے اپنے باہمی دفاعی اشتراک کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ بھی شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ وہ اہم اقدامات ہیں جن سے 2014 میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دورکا آغاز ہوا تھا۔ ماضی کے اس آئینے سے صاف عیاں ہے کہ عمران خان کو انتخابی جیت پر مبارک باد کے بعد نریندر مودی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کس نوعیت کے تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی بات کر رہے ہیں۔ ویسے بھی اگلے سال ہندوستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جن میں نریندر مودی پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کے الزام کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف معرکہ آرائی بھڑکانے کی کوشش کریں گے، غالباً یہی نریندر مودی کا جنوبی ایشیاء میں امن و آشتی کے بارے میں انداز فکر ہے جس کا ذکر انہوں نے عمران خان سے ٹیلی فون گفتگو میں کیا تھا۔