اعلیٰ فوجی افسران کی بیرون ملک ملازمت

300

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ججوں اور سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع سے استفسار کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کس قانون کے تحت ملازمت ختم ہوتے ہی بیرون ملک چلے گئے؟ کیا فوجی افسران پر دوسال تک ملازمت نہ کرنے کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ایجنسیوں کی قدر کرتے ہیں ان کو کئی کئی سال تک تحفظ ملنا چاہیے خدانخواستہ کچھ ہو نہ جائے۔ ان کے پاس حساس معلومات ہوتی ہیں لیکن ہمارے اداروں کے سربراہ یوں اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے دونوں اعلیٰ فوجی افسران کی بیرون ملک ملازمتوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس بتاتے ہیں کہ ملک اب رفتہ رفتہ قانون کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس ملک کے بہت سے مسائل میں ایک دہرا قانون رہا ہے۔ طاقتور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا قانون، سویلین کے لیے ایک رویہ فوجی کے لیے دوسرا رویہ، دولت مند کے لیے قانون موم کی ناک اور غریب کے لیے آہنی شکنجہ۔ ان دہرے میعارات اور متضاد رویوں اور روایات نے قانون کو مذاق بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ رویے قوموں اور ملکوں کو اندر سے گھن کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ ملک میں قانون کا احترام اور خوف ختم ہوجاتا ہے اور آخر کار یہی رویہ ملکوں کو انارکی کی دہلیز پر کھڑا کرتا ہے۔ جہاں ہجوم کا انصاف اور عوامی عدالتوں کا رواج غالب ہوتا ہے۔ ہجوم کے ہاتھ کا ہتھیار اور ڈنڈا ہی قانون بن جاتا ہے۔ سوشل اسٹرکچر برباد ہوجاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اس صورت حال کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان کو ایک منظم انداز سے اسی انجام کی طرف دھکیلا جا تا رہا ہے۔ اس جرم میں صرف باہر والے ہی نہیں خود اندر کے لوگ بھی شریک رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ وقت اب پیچھے رہ گیا اب ملک میں دو قانون کا ناروا رویہ اور رواج اپنے آخری دن پورے کر رہا ہے۔ اب قانون کا اطلاق ہر فرد پر یکساں انداز میں ہوگا۔ اس میں کسی فوجی اور سویلین، کمزور اور طاقتور کی قید نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس کا یہ سوال صائب ہے کہ ملک کے حساس عہدوں پر فائر لوگ ریٹائرمنٹ کا پروانہ ملتے ہی یوں پلو جھاڑ کر بیرون ملک سدھار جاتے ہیں کہ جیسے گھر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جاتے ہوں۔ طاقتور سیاست دانوں سے تو ہمیں یہی گلہ رہا کہ ان کی حکمرانی پاکستانی عوام پر ہوتی ہے اور کاروبار اور دولت وجائداد کے لیے وہ لندن، دبئی اور سنگاپور کو چنتے ہیں۔ ملکی سلامتی اور عوامی بھلائی کے فیصلوں کا اختیار رکھنے والے جن لوگوں کے کاروبار بیرونی دنیا میں ہوں گے ان پر غیر ممالک اثر انداز ہونے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ بالکل یہی کلیہ ان اعلیٰ ترین فوجی افسروں پر لاگو ہوتا ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور چھٹی بڑی فوج میں فیصلہ سازی کی پوزیشن میں رہ چکے ہیں، جن کے سینوں میں مملکت کے بہت سے راز اور ان کہی داستانیں ہوتی ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نوے کی دہائی میں نیشنل سیکورٹی کونسل کی حمایت میں دیے جانے والے بیان کی نذر ہوئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے انہیں بند کمرے میں بلا کر استعفا لے لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہی وہ خاموشی سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور مدتوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ خبریں ملتی ہیں کہ وہ ایک تھنک ٹینک میں اپنی دال روٹی کا بندوبست کیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے پاک فوج کی مراعات سے ان کا چولھا جلنا ممکن نہ ہوتا کہ انہیں بیرون ملک جا کر ملازمت کرنا پڑی۔ جنرل پرویز مشرف آزاد پنچھی بن کر ڈار ڈار اُڑتے پھر رہے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی دیسی قسم کے پوٹھوہاری جنرل تھے۔ خیال تھا کہ ملازمت کے بعد وطن کی مٹی ان کے پیروں کی زنجیر بنی رہے گی مگر ایک روز یہ چونکا دینے والی خبر ملی کہ وہ آسٹریلیا سدھار گئے ہیں اورغالباً اب تک کینگرووں کی سرزمین ہی میں محوِاستراحت ہیں۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل احمد شجاع بھی ہنگامہ خیز دور میں پاکستان کے اعلیٰ فوجی عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔ دونوں جرنیل ملازمت کی مدت ختم ہوتے ہی اپنا پاندان اُٹھائے باہر چلے گئے۔ راحیل شریف سعودی عرب میں جنرل پاشا دبئی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان محض ایک ایٹمی طاقت ہی نہیں دشمن کی نظروں میں خار کی طرح چبھنے والا ملک بھی ہے۔ امریکا، بھارت اور اسرائیل اس کی فوج اور ایٹمی صلاحیت ان طاقتوں کو قطعی گوارا نہیں۔ ایسے ملک کے ذمے دار فوجی افسران کا یوں بیرون ملکوں میں پھرنا واقعتا حیرت کا باعث ہے۔ اب تک اگر اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں تھی تو اب یہ پالیسی موسموں کے تغیر وتبدل اور مزاجوں کے خوش گوار وناگوار ہونے کے تصورات سے بالاتر ہوکر اپنا لینی چاہیے کہ ملک کا قانون ہر خاص وعام پر مقدم اور ہر مصلحت سے بالاتر ہے۔ ہمارے دو آنکھوں والے اور دیدہ بینا رکھنے والے قانون کو دوبارہ جب تک اندھا اور نابینا نہیں بنایا جاتا اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔