الیکشن کمیشن نے کام دکھادیا

360

25 جولائی کو منعقد کیے گئے انتخابات 9 دن گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہوئے۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جن کے مکمل نتائج اب تک سامنے نہیں آئے لیکن جو کچھ سامنے آتا جارہاہے اس سے الیکشن کمیشن کا صاف شفاف انتخابات کرانے کا دعویٰ بری طرح مجروح ہورہاہے اور ہر طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ ہورہاہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن نے تو جو کرنا تھا وہ کرلیا، اب اگر کوئی استعفا بھی دیتا ہے تو کیا فرق پڑے گا۔ دھاندلی کے الزامات تو تحریک انصاف بھی لگارہی ہے جس کو اکثریت دلوائی گئی ہے۔ اس کا جو امیدوار ہارا اس نے بھی دھاندلی کا الزام لگادیا۔ مثلاً این اے 74 (سیالکوٹ) سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار علی زاہد حامد سے ہارنے الے تحریک انصاف کے امیدوار چودھری غلام عباس بھی دھاندلی کا شور مچارہے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے بھی یہ الزام لگایا کہ ووٹوں کی گنتی کے موقع پر متعدد پولنگ اسٹیشنوں سے ان کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔ یہی الزام متعدد حلقوں سے سامنے آیا ہے اور جواب میں بڑی کمزور تاویلات پیش کی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کے چودھری غلام عباس کا دعویٰ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے لیے کئی تھیلے کھولے ہی نہیں گئے اور 100 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج 26 گھنٹے گزرنے کے بعد موصول ہوئے جس سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا ثبوت ملتا ہے۔ اب اگر چند دن بعد ممکنہ طور پر حکومت بنانے والی جماعت بھی دھاندلی کا شور مچارہی ہے تو پھر کیسے صاف اور شفاف انتخابات! ایک اور تماشا یہ ہورہاہے کہ جگہ جگہ سے کچرے میں پڑے ہوئے ووٹ مل رہے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو بھی کراچی میں عارف علوی اور عمران اسماعیل کے حلقوں سے سیکڑوں بیلٹ پیپرز برآمد ہوئے ہیں جن پر تیر کے نشان پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ گزری کے ایک اسکول سے برآمد ہوئے جو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 247 اور صوبائی حلقے پی ایس 111 کے ہیں یہاں سے عارف علوی اور عمران اسماعیل کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ جو بیلٹ پیپرز ملے ہیں ان میں سے کسی پر بھی بلے کے نشان پر مہر نہیں ہے بلکہ تیر، کتاب اور شیر کے نشان پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ چند دن پہلے قیوم آباد میں بھی کچرے کے ڈھیر سے بیلٹ پیپرز ملے تھے جنہیں آگ لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا کے شہر بونیر میں بھی گندگی کے ڈھیر سے ووٹوں سے بھرا ہوا تھیلا برآمد ہوا ہے۔ یہ ووٹ حلقہ پی کے 20 کے ہیں۔ کیا عوام نے اتنے زیادہ ووٹ ڈال دیے تھے جو سنبھالے نہیں گئے بلکہ اِدھر اُدھر پھینک دیے گئے؟ ووٹوں کے سیریل نمبر سے با آسانی پتا لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس کتاب کے ہیں اور پریزائیڈنگ افسران کون تھے۔ ایسے میں یہ اصرار کہ انتخابات صاف شفاف ہوئے، لیکشن کمیشن کو زیب نہیں دیتا۔ ان معاملات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے جس میں اچھی شہرت والے ریٹائرڈ ججوں کو شامل کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ جہاں جہاں سے یہ بیلٹ پیپرز ملے ہیں وہاں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں اور تب تک یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ انتخابات صاف شفاف ہوئے۔ آر ٹی ایس یا نتائج کی منتقلی کا نظام بیٹھ جانا بھی تحقیق طلب ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوا یا اسے دانستہ بند کردیاگیا۔ اس سے زیادہ تشویشناک رپورٹ یہ ہے کہ لاکھوں پریزائیڈنگ افسران پولنگ ختم ہونے کے بعد 12 گھنٹے تک کہاں غائب رہے اور انہیں کس نے ریٹرننگ افسران تک پہنچنے سے روکے رکھا۔ اس عرصے میں یہ افسران کہاں رہے اور کیا کرتے رہے۔ آر ٹی ایس 25 جولائی کو دن کے 11 بج کر 47 منٹ تک بالکل صحیح کام کررہاتھا پھر اچانک بند ہوگیا یا بند کروایا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے اور اس میں سازش کی بو آرہی ہے۔ اس کی بھی جامع تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ہار جیت اپنی جگہ لیکن الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر زد پڑ رہی ہے۔ انتخابات تو آئندہ بھی ہوتے رہیں گے چنانچہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی میں جو خرابیاں ہیں انہیں ابھی سے دور کرلینا چاہیے تاکہ آئندہ صاف شفاف انتخابات کا دعویٰ قابل قبول ہو۔ لیکن اس سے پہلے یہ تو معلوم کیا جائے کہ لاکھوں پریزائیڈنگ افسران رات بھر کہاں رہے اور ایک ساتھ ریٹرننگ افسران کی پہنچ سے باہر کیسے ہوگئے کہ فون کالز کا جواب بھی نہیں ملا۔ پریزائیڈنگ افسران موجود ہیں، ان سے تحقیقات کی جائے اور یہ کھلے عام ہو تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو کہ ہوا کیا ہے۔