آنے والی حکومت کے لیے معاشی چیلنجز

270

25 جولائی کے انتخابات کے بعد ملک میں ہر طرف تبدیلی کے نعرے ہیں۔ نیا پاکستان کا شور ہے۔ اُونچی اُونچی توقعات اور خواہشات کا غلغہ ہے، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ نتائج کے اعتبار سے تحریک انصاف نمبر ون پارٹی ہے اور (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، مگر نہ تو وفاق میں اور نہ ہی پنجاب میں تحریک انصاف کے نمبر گیم پورے ہیں۔ ہوسکتا ہے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں نمبر پورے ہوجائیں مگر فی الوقت دونوں جگہ مزید ووٹوں کی ضرورت ہے اور اسی لیے جہانگیر ترین صاحب اپنا جہاز لیے ایم کیو ایم، ق لیگ اور آزاد امیدواران کی منت سماجت کرتے نظر آرہے ہیں، اسی پر کسی منچلے نے کیا خوب کہا ہے، پہلے غلام خریدے جاتے تھے اب آزاد خریدے جارہے ہیں۔ پھر یہی مسئلہ نہیں بلکہ دوسرا مسئلہ کرسی پر قبضے کا ہے، چاہے معاملہ کے پی کے کا ہو یا پنجاب کا، بہت سوں کی نظریں وزارت علیا کی کرسی پر ہیں۔ تحریک انصاف میں جو دوسرے نمبر پر ہیں وہ پرکشش وزارتوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، اسی لیے ابھی تک وزارت علیا کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔
جہاں تک انتخابات کے نتائج کا معاملہ ہے اس پر کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات سے پہلے حالات و واقعات جس سمت میں جارہے تھے اس سے نتائج کا اندازہ ہوگیا تھا مثلاً راتوں رات قومی اسمبلی کے امیدواروں کو نااہل قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا یا یہ کہ الیکشن کا عمل شام 6 بجے تک بڑا سکون اور شفاف رہا مگر ووٹوں کی گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اور خود الیکشن کمیشن کے عملے نے نتائج مکمل کیے۔ جہاں پولنگ ایجنٹوں نے اصرار کیا سادے کاغذ پر مہر لگا کر نتائج تھمادیے گئے۔ اسی لیے اپوزیشن کی تمام ہی جماعتوں اور گروپوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے اور تمام پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں مشترکہ اپوزیشن کا اعلان کیا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے لیے عمران خان کی شیروانی تیار ہوچکی ہے۔ حلف سے پہلے وہ قوم سے خطاب بھی کرچکے ہیں جس میں انہوں نے متوازن خارجہ پالیسی، فلاحی و خوشحال ریاست کے قیام، بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد، سادگی اور سب سے پہلے میرا احتساب پر زور دیا ہے۔ لیکن ملکی معیشت بڑے بڑے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو صرف 40 دن کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، برآمدات 23 ارب ڈالر جب کہ درآمدات 60 ارب ڈالر کی سطح کو چھو رہی ہیں، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر ہوگیا ہے جو پاکستانی برآمدات کے کل حجم سے زیادہ ہے اور ایسا دنیا میں بہت کم ہوتا ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان کو بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے تقریباً 28 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی اس کے علاوہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے منافع کو ڈالر کی شکل میں اپنے ہیڈ کوارٹر منتقل کرنے کی اس طرح امریکی ڈالر کی طلب مزید بڑھ جائے گی۔ اسی سلسلے میں آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی بات سامنے آرہی تھی یہاں تک کہ تحریک انصاف کے اسد عمر بھی اس کا اعتراف کررہے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ لیکن امریکا کی طرف آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیجز کی مخالفت کے بعد یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے جب کہ دوسری طرف چین نے سی پیک منصوبوں کے لیے 2 ارب ڈالر پاکستان کو دینے کا اعلان کیا ہے۔
فوری طور پر حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ درآمدات کو روکا جائے اس کے لیے وہ درآمدات جو بنیادی ضرورتوں میں شامل نہیں ہیں اُن پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ مختلف درآمدات کا کوٹا مقرر کیا جائے۔ مزید یہ کہ جہاں جہاں ممکن ہو درآمدات کے ملکی متبادل پر گزارا کیا جائے، اس کے علاوہ دوسرے جو بھی اقدامات ہیں ان کے اثرات طویل مدت میں ظاہر ہوں گے۔ مثلاً عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریں گے تا کہ ملک میں زرمبادلہ آئے اور نوجوانوں کو ملازمت فراہم کی جاسکے، یا یہ کہ ہم سادگی کا کلچر اپنائیں گے اور وزیراعظم ہاؤس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کریں گے، اس طرح دیگر اقدامات معاشی بحران کے فوری حل میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ امریکا جیسا بہت بڑا ملک اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے چین، کینیڈا اور یورپی یونین کی درآمدات پر ٹیکس لگا رہا ہے تا کہ درآمدات کو کم کیا جاسکے۔ ہمیں بھی بحران سے نکلنے کے لیے درآمدات کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔