تحریک انصاف: امتحان اور آزمائش

229

تحریک انصاف حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوئی ہے، کوئی کہتا ہے کہ اسے کامیاب کرایا گیا ہے، اس کے باوجود کہ حقائق کا علم ہے مگر ہم فی الحال اس بحث میں نہیں الجھتے، ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ جب وہ اختیارات لینے میں کامیاب ہو، یا اسے اختیارات دیے جائیں، بہر حال یہ بھی ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کے کارٹل، سیاست میں آنے والے لینڈ مافیا، اور ان کے سرپرستوں نے آئین کے آرٹیکل62,63 کی اہمیت اور وزن ختم کردیا ہے اور اب ملکی سیاسی جماعتیں بھی اسی مافیا کے حصار میں گھری ہوئی معلوم ہوتی ہیں تحریک انصاف نے ملک میں سیاسی مافیا کے خلاف آواز اٹھائی تھی لیکن آج اس کی قیادت اپنے منشور، اور نعروں کو فراموش کرکے محض حکومت حاصل کرنے کے لیے آزاد امیدواروں کے کارٹل، سیاست میں آنے والے لینڈ مافیا اور ان کے سرپرستوں کو ساتھ ملا کر حکومت سازی پر مجبور ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام اٹھانے پڑ رہے ہیں جس میں آزاد امیدواروں کی ناز برداریاں اور بارگیننگ شامل ہے۔ اب ان کمزور ترین خطوط پر معرض وجود میں آنے والی حکومت ملک میں کیا تبدیلی لے کر آئے گی؟ مخلوط حکومت سازی کے لیے وہ ق لیگ سے بھی اتحاد کر رہے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کو بھی قریب لارہے ہیں ممکن ہے وہ کسی اسٹیج پہ جا کر پی پی پی کے سامنے بھی ہتھیار پھینک دیں۔ یوں عمران خان اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے انحراف پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کس نے خان صاحب کو اس حد تک بیک فٹ پر جانے پہ مجبور کیا؟؟ اس نظام نے اسی انتخابی نظام نے آج اپنے سامنے تمام تر دعووں کے باوجود بے بس اور مجبور بنا کے کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں تک انتخابات کے بعد لوٹوں سے نجات کا کام ہے تو اس نظام انتخاب کو بدلے اور ایک بے رحمانہ احتساب کیے بغیر نہ تو لوٹوں کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی جیتنے والے گھوڑوں کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔
ایک ایسا انتخابی نظام جس میں جھول ہی جھول ہو جس میں کرپشن، لوٹ مار، بددیانت، بدکردار، بکنے والے ارکان کو ہارس ٹریڈنگ کی کھلی چھوٹ ہو۔ تحریک انصاف یہ غلطی کرکے ماضی کی غلطییوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے پرانی غلطی کو نئی غلطی سے چھپانے کی کوشش میں ہے کہا یہ جا رہا تھا کہ پورا لاہور اور اس کا ایلیٹ علاقہ ان کا دیوانہ ہے یہ ووٹ کہاں چلے گئے؟ اور کیا چند سو ووٹوں کی برتری سے جیت عمران خان کے شایان شان ہے اگر یہ نشست خالی ہوئی اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا امیدوار یہاں سے جیت گیا تو اس حلقے سے کیا خان صاحب کی جیت مشکوک نہیں ہو جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے نادرا سے مل کر جو آر ٹی ایس سسٹم بنایا تھا، وہ کام ہی نہیں کر سکا، حالاں کہ الیکشن سے پہلے اس سسٹم کے بڑے چرچے کیے گئے تھے۔ اس سسٹم کے ذریعے پولنگ اسٹیشنوں سے نتیجہ الیکشن کمیشن کو ملنا تھا، جو نہ مل سکا۔ الیکشن کمیشن نے پابندی لگائی تھی کہ کوئی نیوز چینل سات بجے سے پہلے نتیجے کا اعلان نہیں کرے گا، لیکن کم از کم تین چینلوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اس پابندی کو ہوا میں اڑایا اور دھڑا دھڑ نتیجہ بتانا شروع کر دیا۔ کیا ان چینلوں سے بھی کسی نے پوچھا یا یہ الیکشن کمیشن کی پابندی کے احکامات سے بے نیاز تھے؟ انتخابات سے قبل ٹکٹ کی تقسیم کے دوران تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں سے ایک بیان حلفی لیا تھا کہ اگر پارٹی ٹکٹ نہ ملا تو ہم پارٹی امیدوار کے مقابلے میں الیکشن نہیں لڑیں گے۔ مگر 62/63 کی موجودگی میں اس کے باوجود اپنے ہی حلفیہ بیان کے خلاف الیکشن لڑ کر اپنی ہی پارٹی کو نقصان پہنچانے والے امیدواروں کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی، تحریک انصاف کے کچھ جیتنے والے امیدواروں نے اپنے اپنے ضلع میں اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کے خلاف مخالف جماعت کے امیدواروں کے ساتھ صرف اس لیے ساز باز کی اور اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کے نتائج تبدیل کروانے میں مخالف امیدوار کی معاونت کی کہ کہیں متوقع وزارت مجھ سے نہ چھن جائے۔ اپنی جماعت سے غداری کے باوجود وہ اراکین پارٹی کے رکن بھی ہیں اور آئندہ کے لیے کسی وزارت کے امیدوار بھی۔
پہلے مرحلے میں اگر دیکھا جائے تو اس نظام نے ایک ابھرتی ہوئی پارٹی کو اندر سے توڑا، کہیں پہ ٹکٹ کی تقسیم پر تو کہیں پہ پس پردہ مخالف امیدواروں کی حمایت کر کے، اس سے نقصان یہ ہوا کہ اس کی ساکھ عوام میں خراب ہوئی اور ٹرن آوٹ محدود رہا اور تحریک انصاف کو صرف وہی سیٹیں ملیں جن کی اس سسٹم کے تحت توقع کی جارہی تھی۔ دوسرا مرحلہ اب سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت سازی کا ہے جس میں اپوزیشن جماعتوں نے اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود جمہوری اقدار کے خلاف تحریک انصاف کے خلاف محاذ کھولنے کی منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے جن امیدواروں پر قتل جیسے سنگین مقدمات قائم ہوں اور الیکشن لڑنے کی کھلی آزادی ہو، قبضہ مافیا اور لینڈ مافیا جس نظام میں الیکشن لڑنے کا اہل ہو وہاں پھر خرید و فروخت کے دھندے تو ہو سکتے ہیں۔ کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی اگر قانون کے مطابق 62/63 کی چھلنی سے گزار کر امیدواروں کی مکمل چھان بین کر کے الیکشن ہوتے تو آج عمران خان صاحب کو چھانگا مانگا کی یاد تازہ نہ کرنی پڑتی۔ عمران خان جیسا آزاد منش اور اپنے قول کا پکا سمجھا جانے والا شخص بھی اگر اس نظام کے سامنے بے بس ہو گیا ہے تو حیران ہونا چاہیے کہ جس کا اپنا موقف یہ تھا کہ آزاد امیدوار بلیک میلر ہیں وہ صرف بلیک میل کرنے کے لیے الیکشن لڑتے ہیں جیت کر کروڑوں روپوں میں ضمیر بیچتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ اگر مجھے واضع اکثریت نہ ملی تو میں حکومت کے بجائے اپوزیشن کو ترجیح دوں گا۔
اس نظام اور انتخابی نظام نے آج اپنے سامنے تمام تر دعووں کے باوجود بے بس اور مجبور بنا کے کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں تک انتخابات کے بعد لوٹوں سے نجات کا کام ہے تو اس نظام انتخاب کو بدلے اور ایک بے رحمانہ احتساب کیے بغیر نہ تو لوٹوں کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی جیتنے والے گھوڑوں کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح نے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں بلائی گئی ملٹی پارٹیز کانفرنس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دوسرے ارکان اپنے عہدوں سے مستعفی ہوں انہوں نے اس کانفرنس میں سیاسی رہنماؤں کے بیانات کو قابل مذمت قرار دیا اور جواباً یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ نتائج کو تسلیم کریں اور کہا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورے ملک سے دھاندلی کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ عوام نے آزادانہ حق رائے دہی استعمال کیا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اپنا یہ بیان کمیشن کے دفتر کے باہر میڈیا کے نمائندوں کے سامنے پڑھا اور چلے گئے۔ صحافیوں کو کسی سوال کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ بعض اوقات میڈیا سے بات کرنے والے سیاست دان یا دوسری شخصیات سوالات کے جواب کے لیے تیار نہیں ہوتے یا اس کام کو کسی اگلے وقت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن کے سیکرٹری تو ان سوالات کا جواب دینے یا باالفاظ دیگر ان الزامات کی صفائی دینے کے لیے آئے تھے جو 25 جولائی کو الیکشن کے نتائج آنے کے ساتھ ہی اٹھنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ تو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ پولنگ پرامن طور پر انعقاد پزیر ہوئی اور بعض پولنگ اسٹیشنوں پر سست روی کی شکایات تو ملتی رہیں، لیکن عمومی طور پر کسی بڑی رکاوٹ کا تذکرہ نہیں ہوا۔ اسی سست روی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) سمیت کئی جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پولنگ کا وقت بڑھایا جائے لیکن یہ مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ اصل شکایات تو گنتی شروع ہونے کے ساتھ ہی سامنے آئیں۔ جب پولنگ ایجنٹوں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دیا گیا۔ ماضی میں کسی نہ کسی اسٹیشن پر پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنے کی شکایات تو ملتی رہتی تھیں، لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہر کوئی یہ شکایت کر رہا ہو کہ گنتی اس کے سامنے نہیں ہوئی۔ عین ممکن ہے گنتی درست ہوئی ہو اور اس میں کوئی بے قاعدگی بھی نہ ہو، لیکن جب بغیر کسی وجہ کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا تو شکایات پیدا ہوئیں۔ اگر ان پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنے کا عمل اتنا ہی معصومانہ تھا اور یہ کوئی ایسی بے قاعدگی نہ تھی، جس کا الیکشن کمیشن نوٹس لیتا یا پریزائیڈنگ افسر اس کے ازالے کی کوئی معمولی سی کوشش کرتا تو پھر اس کار بے خیر کے کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ خواہ مخواہ مخالفین کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار دے دیا گیا جس کا استعمال کرکے وہ پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے۔ دوسری شکایت یہ سامنے آئی کہ پولنگ ایجنٹوں کو ان کی غیر حاضری میں کی جانے والی گنتی کا جو نتیجہ بھی تھمایا گیا وہ مقررہ فارم (فارم 45) پر نہیں تھا۔ یہ نتیجہ سادہ کاغذ پر تھا اور اس پر پریزائیڈنگ افسر کی مہریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ طریق کار کیوں اختیار کیا گیا۔ مقررہ فارم پر نتیجہ کیوں نہیں دیا گیا ان سوالات کا جواب کب ملے گا۔