سرسید کی شخصیت اور فکر کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ سرسید کے دل میں ’’سیاسی و عسکری اتھارٹی‘‘ کی بڑی عزت تھی، البتہ ان کے دل میں ’’مذہبی اتھارٹی‘‘ کے لیے بے پناہ نفرت موجود تھی۔ ایک جانب سرسید نے انگریزوں کے جابرانہ تسلط کو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور رحمت قرار دیا ہے اور دوسری جانب انہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو باغی، غدار، نمک حرام اور حرام زادے قرار دیا ہے۔ سرسید کے اس رویے کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ مغرب کے مفکرین کی ہر بات کو بلا چوں چرا تسلیم کرلیتے ہیں مگر انہیں بڑے بڑے مفسرین، محدثین اور فقہا کی آرا لا یعنی اور مسترد کیے جانے کے لائق نظر آتی ہیں۔ سرسید نے ایک جگہ لکھا۔
’’شیخ الاسلام مسلمانی مذہب کے مطابق کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی شخص خوامخواہ اس کا حکم ماننے کا پابند نہیں ہے۔ جو شخص اس کا حکم مانے اس کے ایمان میں، اس کے مذہب میں کسی طرح کا نقصان نہیں آسکتا۔ نہ کوئی گناہ اس پر ہوتا ہے، یہ عہدہ کوئی مذہبی عہدہ نہیں ہے جیسا کہ پوپ کا عہدہ خیال کیا جاتا ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 227)
سرسید کی اتنی بات درست ہے کہ شیخ الاسلام واقعتا کوئی عہدہ نہیں۔ مگر ہماری تاریخ میں مجددین اور بڑے علما کے لیے یہ اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے اور مجدد بھی ایک مذہبی اتھارٹی ہے اور بڑا عالم دین بھی ایک مذہبی اتھارٹی ہے۔ چوں کہ یہ اصطلاح مذہبی اتھارٹی کی علامت ہے اس لیے سرسید شیخ الاسلام کے بھی خلاف ہیں اور مفتی کے بھی۔
عیسائیت میں پوپ کا عہدہ بھی اصل میں کوئی عہدہ نہیں ہے بلکہ پوپ بھی اپنی اصل میں ایک مذہبی اتھارٹی ہے مگر چوں کہ انگریز کیتھولک نہیں تھے پروٹسٹنٹ تھے اور پروٹسٹنٹ ازم میں پوپ یا مذہبی اتھارٹی کا تصور نہیں، چناں چہ سرسید پوپ کے بھی قائل نہیں تھے۔ اگر انگریز کیتھولک ہوتے تو سرسید پوپ کے بھی قائل ہوتے اور پھر شاید ان کے دل میں ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لیے بھی گنجائش ہوتی لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
اسلام میں قانون اور تشریح و تعبیر کے چار سر چشمے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید، حضور اکرمؐ کی سنت، اجماع اور قیاس۔ سرسید قرآن کا کھلا انکار نہیں کرتے مگر چوں کہ وہ قرآن کے حقائق یا Facts کو تسلیم نہیں کرتے اسی لیے وہ سو فی صد نہیں دو سو فی صد منکر قرآن ہیں۔ حدیث کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صاف کہا ہے کہ صحیح احادیث کے مجموعے یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم بھی قابل اعتبار نہیں۔ اب آپ اجماع کے بارے میں ان کی رائے ملاحظہ کیجیے، فرماتے ہیں۔
’’صحیح مسئلہ اسلام کا یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی کا خطا میں پڑ جانا ممکن ہے اسی طرح ایک گروہ کا بلکہ ایک زمانے کے لوگوں کا خطا میں پڑنا ممکن ہے۔ پس اجماعِ اُمت ہر ایک شخص پر جو اس اجماع کو غلط یا غلط بنیاد پر سمجھتا ہو واجب العمل نہیں ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ158)
رسول اکرمؐ سردار الانبیا ہیں، خاتم النبین ہیں، آپؐ پر قرآن نازل کیا گیا، قرآن نے آپؐ کے بارے میں گواہی دی کہ آپؐ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہی کہتے ہیں جو آپؐ کو بتایا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا کہ آپؐ اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کریں۔ اس حکم میں کئی حکمتیں ہیں۔ مگر زیر بحث موضوع کے حوالے سے جو حکمت زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ امت میں مشورے اور اجماع کا اصول قائم کیا جاسکے۔ اس اصول کی نقلی دلیل یہ ہے کہ مشورے میں رحمت اور برکت ہے، حکمت کسی کی میراث نہیں، اللہ تعالیٰ کب کس پر مہربان ہو کہ اسے اصل بات تک پہنچادے نہیں معلوم۔ چناں چہ جہاں مشورہ ہوتا ہے، جہاں قرآن مجید کے اصول کے مطابق شوریٰ ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ برکت ہوتی ہے۔ اس کا کرم ہوتا ہے، اجماع کے اصول کی عقلی دلیل یہ ہے کہ جہاں زیادہ علم، زیادہ فہم، زیادہ عقل ہوتی ہے وہاں بہتر رائے کے ظہور اور بہتر فیصلے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ سرسید اجماع کے خلاف ہیں مگر انہوں نے اس سلسلے میں نہ کوئی نقلی دلیل دی ہے نہ کوئی عقلی دلیل مہیا کی ہے۔ سیکڑوں دیگر مقامات کی طرح اس مقام پر بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ پوری اُمت کے علم، پوری امت کی عقل کو ناقص سمجھو مگر میرے ’’ذاتی علم‘‘ اور ’’انفرادی عقل‘‘ کو خطا اور نقص سے مامون و محفوظ جانو۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پوری امت کا علم اور عقل تو ’’محدود‘‘ ہوسکتی ہے مگر سرسید یا کسی ایک شخص کا علم اور عقل ’’لامحدود‘‘ ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے نہ یہ کوئی علمی بات ہے نہ عقلی بات ہے۔
سرسید اجماع کے اصول کے حوالے سے اس حقیقت کو بھی اہم نہیں سمجھتے کہ اجماع اصولی اعتبار سے عام افراد، عام مسلمانوں یا عوام کا اجماع نہیں بلکہ یہ خواص، خواص الخواص، عالموں یا آج کی اصطلاح میں ممتاز ترین ’’ماہرین‘‘ کا اجماع ہے۔ جدید مغرب عقل پرست ہے اور وہ فرد کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے علم اور اپنی عقل کی روشنی میں اگر اجماع کو غلط سمجھتا ہے تو وہ اس اجماع کا انکار کردے مگر جدید مغرب نے خود اجماع کی مختلف صورتیں ایجاد کر رکھی ہیں۔ ہمارے یہاں ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی پارلیمنٹ جاہلوں اور احمقوں کا ادارہ بن چکی ہے مگر پارلیمنٹ کی پشت پر عوام کی اکثریت یا اجماع کی قوت ہوتی ہے۔ چناں چہ پارلیمنٹ اپنی اکثریت یا اپنے اجماع کے ذریعے جو چاہے قانون منظور کرسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت یا عوام کے اجماع اور پارلیمنٹ کی اکثریت یا پارلیمنٹ کے اجرا کو ویسی ہی تقدیس حاصل ہے جیسی تقدیس ہماری روایت میں ’’اجماع‘‘ کو حاصل ہے مگر سرسید کی تحریروں میں کہیں ایک فقرہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں انہوں نے پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا ہو۔ آج کل کے سیکولر اور لبرل افراد بھی مذہب کی تقدیس یا علما کے اجماع کی تقدیس کے تو قائل نہیں مگر عوام اور پارلیمنٹ کے اجماع کو ان کی نظر میں ایسا تقدس حاصل ہے کہ اس کے بارے میں کوئی تنقیدی رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ یہ قصہ صرف عوام اور پارلیمنٹ تک محدود نہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے دائرے میں یہ عام روایت ہے کہ بڑے اور اہم مقدمے میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا ’’فل بنچ‘‘ قائم کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فل بنچ اعلیٰ عدالتوں کے ’’اجماع‘‘ کی علامت ہے اور فل بنچ کے فیصلوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غلط نہیں ہوسکتے۔ بشرطیکہ وہ فیصلے کسی دباؤ یا لالچ کے تحت نہ کیے گئے ہوں۔ فی زمانہ یہ عام بات ہے کہ کوئی بڑا سیاست دان یا دولت مند شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اس کی بیماری کے مطالعے اور تجزیے کے لیے ’’میڈیکل بورڈ‘‘ قائم کردیا جاتا ہے اور بورڈ باہمی مشورے سے مرض کی جو تشخیص کرتا ہے اور علاج کی جو صورت تجویز کرتا ہے اسے سب قبول کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ تشخیص اور وہ تجویز ’’ماہرین کے اجماع‘‘ کا حاصل ہوتی ہے۔ مگر مسلمانوں کے ’’مذہبی ماہرین‘‘ کے اجماع کو نہ سرسید مانتے تھے نہ آج کل کے سیکولر اور لبرل مانتے ہیں۔
سرسید کا اصرار ہے کہ ایک گروہ کیا پوری امت کی رائے غلط ’’ہوسکتی‘‘ ہے۔ ٹھیک ہے، مگر ’’ہوسکنے‘‘ اور ’’ہونے‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہوسکتا محض ایک ’’امکان‘‘ ہے اور ’’ہونا‘‘ ایک ’’حقیقت‘‘۔ سرسید نے اجماع کے تصور کو چیلنج کیا تھا تو انہیں کم از کم دس بارہ مثالیں دے کر ثابت کرنا چاہیے تھا کہ علما کے اجماع نے اتنی جگہ ٹھوکر کھائی ہے مگر سرسید نے اس سلسلے میں دس بارہ کیا ایک مثال بھی پیش نہیں کی۔ یہ روحانی، مذہبی یا اخلاقی رویہ کیا علمی اور عقلی رویہ بھی نہیں ہے۔ سلیم احمد سرسید کو بابائے جدیدیت کہا کرتے تھے اور وہ بابائے جدیدیت کے عنوان سے سرسید پر ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے مگر سرسید کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید تو جدیدیت کو بھی نہیں جانتے تھے۔ جدیدیت خدا، رسالت، وحی اور آخرت کی منکر ہے۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدا، رسالت، وحی اور آخرت کا انکار بھی نہیں کرتے اور انہیں اس طرح مانتے بھی نہیں جس طرح ان تمام چیزوں کو ماننے کا تقاضا ہے۔ جدیدیت عقل پرست ہے، مگر سرسید عقل عقل تو بہت کرتے ہیں مگر وہ کہیں بھی عقل پرستی کا مظاہرہ کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپاتے۔ یعنی ان کے یہاں عقل ایک نظام بن کر ظاہر نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کو مذہبی کہنا مذہب کی توہین ہے اور انہیں جدید کہنا جدیدیت کی توہین ہے۔ مذہب کے تناظر میں جدیدیت ایک حقیر شے ہے مگر اتنی بھی حقیر نہیں جتنی وہ سرسید کی فکر اور تحریروں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ سرسید اوّل و آخر مغرب کے غلام تھے، روحانی غلام، نفسیاتی غلام، جذباتی غلام، علمی غلام، تہذیبی غلام۔ ایسا انسان نہ گہرائی میں مذہبی ہوتا ہے نہ جدید۔ اس کی محبت سچی ہوتی ہے نہ نفرت۔ اس لیے سرسید کی ہر چیز اُتھلی ہے۔ ان کی عقل اور جدیدیت بھی۔