تعلیم دشمنوں کا وار

247

تعلیم دشمن ایک بار پھر وار کرگئے۔ گزشتہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اور علی الصبح گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے مختلف علاقوں میں 12 اسکول جلادیے گئے یا ان کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان اسکولوں میں سے 10 لڑکیوں کے ہیں اور ایک اسکول فوج کے زیر انتظام ہے۔ واردات سے ظاہر ہے کہ تخریب کار لڑکیوں کی تعلیم کے دشمن ہیں حالانکہ اسلام میں علم کا حصول تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ حملہ آور مسلمان ہی ہوں گے لیکن راہ راست سے بھٹکے ہوئے مسلمان خواہ ان کا تعلق کالعدم طالبان پاکستان سے ہو یا دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے نام سے دہشت گردوں کی نئی تنظیم سے ہو۔ خود کو طالبان یا خلافت اسلامیہ کے احیاء کے دعویدار یہ دور جدید کے خوارج اور ابو جہل کی امت سے تعلق رکھنے والوں کو مذہب اسلام کی تعلیمات کا علم ہی نہیں۔ چند لوگوں نے ایسے افراد کو اپنے جال میں پھانسا ہوا ہے جن کو دین کا فہم ہی نہیں چنانچہ ان کو باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان ’’دارالحرب‘‘ ہے اور یہاں تخریب کاری دراصل جہاد ہے۔ جو اسکول جلائے گئے وہ پرائمری سطح کے تھے اور ظاہر ہے کہ وہاں بچیاں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ ایسے لوگ مسلمان خواتین کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں بھی یہ تصور تھا کہ خواتین کو تعلیم دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن برعظیم پاک و ہند کے کئی مصلحین نے اس تصور کے خلاف مہم چلائی۔ ایک پڑھی لکھی خاتون ہی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکتی ہے لیکن ان درندوں کو ایسی تعلیم یافتہ نسل کی ضرورت نہیں جو علم حاصل کرکے ان کے جال سے نکل جائے وارداتیں دور دراز علاقوں میں ہوئی ہیں چنانچہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں تاخیر ہوگی تاہم 10 مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دیامیر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر کا ایک اسکول 2004ء سے 2015ء تک پانچ بار جلا یا گیا۔ ایسے میں تو علاقے کی انتظامیہ کو چوکس ہوجانا چاہیے تھا لیکن یا تو انتظامیہ لا پروا ہے یا تخریب کاروں سے خوف زدہ۔ 12 اسکول جلائے جانے کے بعد ہفتہ کے دن ایک اور اسکول جلا دیا گیا۔ کیا تخریب کار گلگت بلتستان کی حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں؟ علاقے کے ایس ایس پی رائے اجمل نے جمعہ ہی کو دعویٰ کیا تھا کہ سیکورٹی سخت کردی گئی ہے اور ضلع دیامیر کے داخلی و خارجی راستوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ تحقیقات کا آغاز ہونے سے پہلے ہی ایس ایس پی صاحب نے طے کرلیا کہ ان وارداتوں میں کوئی عسکری تنظیم ملوث نہیں بلکہ یہ علاقائی لوگوں کا کام ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ یہ فیصلہ تحقیقات کے بعد کرتے؟ حملہ آور جو بھی ہیں کیا ایک یا کئی ملالہ یوسف پیدا کرنا چاہتے ہیں؟۔