ایم کیو ایم کا معاہدہ عمرانی 

577

پاکستان تحریک انصاف اور کراچی کی نمائندگی کی دعویدار متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں 9 نکاتی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں شامل رہے گی۔ حکومت سازی کے جاری مرحلے میں تحریک انصاف کو ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے تاکہ اس کے نمبر پورے ہوجائیں۔ ایسے میں اچھا برا کچھ نہیں دیکھا جاتا صرف کرسی پر نظر ہوتی ہے۔ عمران خان شاید یہ بھول گئے کہ انہوں نے لوٹوں کی مدد سے حکومت بنانے کے بجائے حزب اختلاف میں بیٹھنے کو ترجیح دی تھی لیکن ایسے میں ان کی 22 سال کی جدوجہد پر پانی پھر جاتا۔ ان کا مطمع نظر تو حکومت حاصل کرنا ہے اور اسی لیے ان پر خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یہ معاہدہ ایم کیو ایم کے لیے بھی اچھا ہے کہ اس طرح سے اس پر عمران خان کی طرف سے عاید کردہ الزامات خود عمران خان ہی کے ہاتھ سے دھل گئے۔ عمران خان ایم کیو ایم کو بھارتی ایجنسی را کا ایجنٹ کہتے تھے مگر اب وہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما علیم خان نے اس حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر کہا کہ اصل مسئلہ تو الطاف حسین تھا جو اب ’’مائنس‘‘ ہوگیا ہے۔ یعنی ایم کیو ایم میں سے بڑی گند نکل گئی، اب وہ صاف ستھری ہوگئی ہے۔ لیکن کیا الطاف حسین واقعی مائنس ہوگئے یا ان کا سایہ اب بھی ایم کیو ایم پر ہے؟ موجودہ ایم کیو ایم کی قیادت جب بھی الطاف حسین کا ذکر کرتی ہے بڑے احترام سے کرتی ہے اور اس پر زور دیتی ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی تو الطاف حسین ہی ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں اور ایم کیو ایم لندن کے دہشت گرد اب بھی فعال ہیں۔ ٹھیک ہے کہ تحریک انصاف کے خیال میں کنواں پاک ہوچکا ہے لیکن موجودہ قیادت سے یہ ضرور پوچھا جائے کہ جب کراچی میں یہ نعرہ گونج رہا تھا اور اس کو عملی جامہ بھی پہنایا جارہا تھا کہ ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے‘‘ تو اس وقت موجودہ قیادت کیا کررہی تھی اور کیا اس نعرے سے اتفاق کرکے اپنی جان بچا رہی تھی۔ الطاف حسین کے خلاف کھل کر صرف مصطفےٰ کمال بولے ہیں اور مقابلے میں اپنی پارٹی کھڑی کردی لیکن ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکے کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ وہ جس پر تبراّ بھیج رہے ہیں اور اس کے شرابی اور پاگل ہونے کی گواہی دے رہے ہیں، خود بھی اسی کے آلہ کار تھے۔ بہر حال یہ نیا عمرانی معاہدہ دونوں کو مبارک ہو۔ اس بار ایم کیو ایم نے صرف 9 نکات پر اکتفا کیا ہے لیکن محترمہ بے نظیر کے دور حکومت میں جب پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی لڑائی عروج پر تھی تو فوج نے مداخلت کرکے سمجھوتا کروایا تھا اور ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہائی دلوائی تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم نے جو مطالبات پیش کیے تھے وہ 70 سے اوپر ہی تھے اور محترمہ بے نظیر نے بلاتوقف منظور کرلیے تھے کہ اس پر عمل ہی کہاں ہوگا۔ ان 70 نکات میں سے ایک پر بھی ایم کیو ایم عمل نہیں کروا سکی۔ اور اب جو یہ 9 نکات پیش کئے گئے ہیں ان میں سے کئی وہ ہیں جو پیپلزپارٹی کو پیش کیے گئے تھے۔ ان نکات میں ایک اہم نکتہ سندھ میں کوٹا سسٹم کا خاتمہ تھا لیکن بعد میں خود ایم کیو ایم نے اس میں توسیع منظور کرلی۔ کوٹا سسٹم آج بھی موجود ہے حالاں کہ بھٹو صاحب کے 1973ء کے معروف آئین میں اس کے اطلاق کی جو مدت طے کی گئی تھی وہ برسوں پہلے ختم ہوگئی۔ ایم کیو ایم کا ایک مطالبہ بنگلا دیش میں پھنسے ہوئے اصل پاکستانیوں کو واپس لانے کا تھا، اس پر بھی عمل نہیں ہوا کیوں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت جن کے بل پر قائم ہے ان کا نعرہ ہے ’’بہاری نہ کھپن‘‘۔ یہ اور بات کہ ڈھائی لاکھ محصورین سے کئی گناہ زیادہ افغانوں، روہنگیوں، بنگالیوں اور لاکھوں غیر سندھیوں نے کراچی کو اپنا وطن بنا رکھا ہے۔ تحریک انصاف سے کیے گئے معاہدے کا ایک نکتہ یہ ہے کہ پولیس میں غیر سیاسی بھرتیاں ہوں گی۔ مطالبہ بالکل جائز ہے اور ایسا ہونا چاہیے لیکن مطالبہ کرنے والوں نے کیا اس پر غور کیا کہ سندھ پولیس میں بھرتیاں حکومت سندھ کرے گی یا وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت۔ اس نکتے پر صرف اصولی اتفاق تو ہوسکتا ہے۔ اس پرعمل نہیں ہوسکتا ۔ حکومتیں پولیس ہی کے ذریعے اپناکام نکالتی ہیں اور اس کے لیے سیاسی بھرتیاں کی جاتی ہیں، اس سے حکام کو آمدنی بھی ہوتی ہے اور سیاسی طور پر بھرتی کیے جانے والے پولیس افسران سے اپنے مطلب کا کام بھی لیا جاتاہے۔ کراچی آپریشن پر نظرثانی اور جرائم میں ملوث کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ہے۔ کراچی آپریشن رینجرز اور فوج کے ذریعے ہو رہاہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کراچی کا امن بحال ہوا ہے۔ عمران خان خود ایم کیو ایم پر متعدد الزامات لگاتے رہے ہیں جو صرف الطاف حسین پر نہیں تھے۔ تو کیا وہ کراچی آپریشن رکوا سکیں گے ؟ اس سے تو ان کے سہولت کار بھی بگڑ سکتے ہیں۔ اب تو این آر او کے تحت بری ہونے والے ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کے مقدمات دوبارہ کھولے جارہے ہیں۔ معاہدے کے تحت حالیہ عام انتخابات پر متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ یہ تحفظات تو تحریک انصاف کے خلاف ہی ہیں کہ اس نے ایم کیو ایم کو کئی نشستوں سے محروم کردیا، دھاندلی کے الزامات تحریک انصاف پر ہیں جس نے کراچی سے ایم کیو ایم کے تسلط کا خاتمہ کردیا۔ ایم کیو ایم کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے شوق میں تحریک انصاف اپنی ایک رہنما زہرہ شاہد کا قتل بھی بھلا بیٹھی اور خون بہا طلب کرنے کے بجائے اس کے قاتلوں سے ہاتھ ملا لیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق ایم کیو ایم نے معاہدہ کر کے اپنی موت کے پروانے پر دستخط کیے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ معاہدہ کس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا اور کس پر کس کا دباؤ تھا۔