شب تاریک کی ناگن نے شفافیت کو نگل لیا

604

1976. میں بھٹو صاحب کی حکومت اپنے عروج پر تھی اس وقت روزآنہ یہ خبریں شائع ہورہی تھیں فلاں چودھری اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت پی پی پی میں شامل ہو گئے، فلاں سردار دو ہزار ساتھیوں سمیت پی پی پی میں شامل ہو گئے ایک موقع پر خود بھٹو صاحب نے بیان دیا کہ ملک کی آبادی سات کروڑ ہے اور نو کروڑ لوگ پی پی پی میں شامل ہو چکے ہیں، بہر حال اسی سال کے آخری دنوں میں ایجنسیوں نے بھٹو صاحب کو رپورٹ دی کہ اس وقت ملک میں ہر طرف پیپلز پارٹی کا توتی بول رہا ہے اور اپوزیشن کی جماعتیں نہ صرف منتشر ہیں بلکہ عدم فعالیت کا شکار بھی ہیں اس موقع پر اگر انتخابات کرادیے جائیں تو پیپلز پارٹی بہت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائے گی۔ چناں چہ جنور ی 1977 میں ریڈیو پاکستان سے معمول کی تقریر کرتے ہوئے اچانک بھٹو صاحب نے یہ اعلان کردیا کہ اس سال کی 7مارچ کو قومی اور 10مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کیے جائیں گے یہ اعلان اتنا اچانک تھا کہ لوگ حیران رہ گئے کہ آئینی طور سے بھٹو صاحب 14اگست 1978 تک حکومت کرسکتے تھے، چوں کہ 14اگست 1973 کو مستقل دستور نافذ العمل ہوا تھا اور دستور کے تحت پانچ سال کے بعد انتخابات ہوتے لیکن بھٹو صاحب کے نزدیک دستور وغیرہ کی کوئی اہمیت تو تھی نہیں وہ پہلے ہی اس میں کئی ترامیم کرچکے تھے اس اعلان کے بعد متحدہ جمہوری محاذ کا اجلاس ہوا اس اجلاس میں مولانا شاہ احمد نورانی اور اصغر خان بھی شریک ہوئے جو یو ڈی ایف میں شامل نہیں تھے، پھر اس رات یو ڈی ایف ختم کرکے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل عمل میں آئی۔ 9جماعتوں کے اس اتحاد نے الیکشن میں حصہ لیا۔ اس وقت ملک میں جہاں ایک طرف بھٹو صاحب کے خلاف عوام میں نفرت عروج پر تھی لیکن دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن اتنی گری ہوئی بھی نہ تھی کہ وہ انتخاب ہار جاتی۔ پیپلز پارٹی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خاطر اس وقت اگر بڑے پیمانے دھاندلی نہ کرتی اور دیانتدارانہ انتخاب کرادیتی یا کم دھاندلی کرتی تو بھی دو سو کے ایوان میں بہت آسانی سے 105 یا 110 نشستیں جیت لیتی۔ پھر بعد میں آزاد ارکان کو شامل کر کے ایوان میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرلیتے۔ لیکن پہلے ہی مرحلے میں اس ہدف کو حاصل کرنے کی خاطر اپنے ارکان کو یہ ٹارگٹ اور آزادی دی کہ وہ کسی بھی طرح اپنی سیٹ پر فتح حاصل کر لیں۔ چناں چہ پی پی پی کے ہر امیدوار نے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کر کے کامیابی حاصل کرلی اور 170سے زاید لوگ کامیاب ہو گئے اس منظم اور بڑے پیمانے کی دھاندلی نے پیپلز پارٹی کی اصل جیت کو بھی مشکوک بنادیا اور پوری دنیا میں یہ تاثر گیا کہ انتخاب میں پاکستان قومی اتحاد جیتنے والا تھا اس لیے سرکاری پارٹی نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے پی این اے کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے۔ پھر پی این اے کی طرف سے دوبارہ انتخاب کی تحریک چلی جو بعد میں تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہوئی اس کے نتیجے میں دوبارہ انتخابات تو نہ ہو سکے البتہ بھٹو صاحب معزول کردیے گئے۔ پچھلے تیس سال سے کراچی میں جو انتخابات ہو رہے ہیں شروع کے دو ایک انتخاب کے بعد ایم کیو ایم ٹھپے لگا کر نتائج کو اپنے حق میں کرتی تھی اس وقت بھی ہم لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر ایم کیو ایم ٹھپے نہ بھی لگائے تو جب بھی وہ انتخاب آسانی سے جیت سکتی ہے لیکن اپنی فتح کو عظیم الشان فتح میں تبدیل کرنے کے لیے اور یہ تاثر دینے کے لیے روز بروز ایم کیو ایم پر لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے وہ گن پوائنٹ پر پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرکے اور مخالف سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو بھگا کر اور عملے کو یرغمال بنا کر رات گئے تک جو ٹھپے لگائے جاتے تھے اس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی اصل جیت بھی مشکوک ہوجاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی عوام میں سیاسی پوزیشن بہت اچھی تھی 2013 کے انتخاب میں اس نے کراچی سے 8لاکھ سے زاید ووٹ حاصل کیے تھے اس وقت جو نوجوان 18سال کے نہ ہونے کی وجہ سے ووٹر نہیں تھے وہ 2018 میں ووٹر بن چکے تھے نوجوانوں کے علاوہ دوسری بڑی وجہ خواتین بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے حق میں تھیں پچھلے ہفتے کراچی کے اجتماع کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے امیر حلقہ کراچی نے بتایا کہ ہماری خواتین گھروں میں جاکر انتخابی مہم چلا رہی تھیں انہوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ بھئی آپ کہاں ہیں یہاں تو بلا ہی بلا چل رہا ہے اس لیے کہ جب کارکن خواتین گھروں پر جاتیں تو ان سے گھر کی عورتیں صاف کہہ دیتیں کہ ہم تو بلے کو ووٹ دیں گے۔ خواتین اور نوجوانوں کے علاوہ ایک تیسرا طبقہ وہ بھی تھا جس کو تحریک انصاف گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک لائی وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، پڑھا لکھا اور برگر فیملی سے وابستہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے کبھی ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔ ان تین طبقات کے بعد چوتھا طبقہ عوامی طبقہ تھا جس میں یہ تاثر تھا کہ اب تک دو خاندان اس ملک کو لوٹتے رہے ہیں اور اپنے ملک کے عوام کا پیسہ ناجائز طریقے سے کما کر باہر کے ملکوں میں اپنی جائدادیں بناتے رہے ہیں اور عمران خان نے باہر جو کچھ کمایا وہ ملک میں لے کر آگیا اس لیے عوام میں ایک طبقہ بڑی تعداد میں ایسا تھا جو پہلے ہمیشہ کسی اور سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے رہا اور اب انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کرلیا ایک صاحب ووٹ دے کر آئے تو کسی نے ان سے کہا کہ آپ تو کتاب کو ووٹ دے کر آئے ہوں گے اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے جماعت اسلامی کو ووٹ دیتے رہے ہیں انہوں نے کہا نہیں میں اس دفعہ بلے کو ووٹ دے کر آیا ہوں وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ ان دو خاندانوں سے اس ملک کی جان چھڑانی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی پوزیشن عوام میں پہلے ہی بہت مضبوط تھی لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس کسی نے کیا اس نے عمران خان کی اصل جیت کو بھی مشکوک بنادیا۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ 116 کے بجائے 100 یا 105 نشستیں ملتیں چالیس پچاس ہزار کے مارجن کے بجائے ہارنے والے امیدوار سے دس پندرہ ہزار کا فرق رہتا کلوز فائٹ سے جیتنے والے ہار جاتے لیکن بعد میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اتنا بڑا طوفان تو نہ اٹھتا جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ 1977 کے انتخاب میں 110 یا 120 پی پی پی کو ملتیں اور ساٹھ ستر نشستیں پی این او کو مل جاتیں تو شاید اتنی بڑی تحریک نہ چلتی اور ہماری تاریخ کچھ اور ہوتی۔ فرشتے کائنات کی وہ مخلوق ہیں جو ڈسپلن کے پابند ہیں ان کا کام صرف اطاعت کرنا ہوتا ہے۔ گو کہ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر اس سے بلند رتبہ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ ان پر کوئی تنقید کریں۔ کفار مکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے نفرت اور غصے کا اظہار کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا سخت نوٹس لیا۔ اسفند یار ولی اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے 6بجے شام تک تو بہت شفاف ووٹنگ ہوتی رہی اس کے بعد کیا کچھ ہوا اس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا بس یوں سمجھیے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہی اور شب تاریک کی ناگن شفافیت کو نگل گئی۔ فاروق ستار نے کہا کہ ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جواب آیا کہ اپنی پارٹی کو ہارتا ہوا دیکھ کر پولنگ ایجنٹ خود اٹھ کر چلے گئے اور یہ ایک فطری بات ہے یہ تو جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹ ہوتے ہیں جو اگر مخالف کو پانچ سو ووٹ ملے ہوں اور کے صرف پچاس ووٹ نکلیں، جب بھی وہ بیٹھے رہتے ہیں اپنی ہار کی تحریر لے کر نکلتے ہیں۔ بہر حال جو کچھ ہوا وہ ہو گیا عمران خان تو جیتے ہوئے ہیں ہمیں آگے کی طرف دیکھنا اگر اس حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہوں تو ہندوستان کے مشہور شاعر کلیم عاجز کا یہ شعر پڑھ لیا کریں۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو