صراط مستقیم

183

ناصر حسنی
عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ انہوں نے از خود نوٹس کے ذریعے بہت سے اداروں کو صراط مستقیم پر چلانے کی کوشش کی مگر بد قسمتی سے اپنا گھر ٹھیک نہ کرسکا۔
ہم انہی کالموں میں بارہا یہ گزارش کرچکے ہیں کہ جو سربراہ اپنا ادارہ درست انداز میں نہ چلاسکے اسے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ جو شخص اپنی ذمے داری احسن طریق پر نہ چلاسکے اسے دوسروں پر انگشت نمائی کرنا زیب نہیں دیتا۔ سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ میاں فضیحت کو نصیحت کرنے کا شوق پالنا نہیں چاہیے۔ المیہ یہی ہے کہ ہمارے سارے میاں فضیحت، نصیحت کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں۔
چیف صاحب اور ان کے پیش رو بارہا اس حقیقت کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ہمارا نظام عدل فرسودہ ہے اور بد نصیبی یہ بھی ہے کہ ہم اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرسکے۔ ہم آج بھی پٹواری کے محتاج ہیں چیف صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انصاف میں تاخیر کے ذمے دار ججز ہیں اور اس کی بنیادی اور اہم وجہ قانون سے مکمل آگاہی نہیں۔
چیف صاحب! جج صاحبان قانون سے اچھی طرح آگاہ ہیں مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وکلا کو ناراض کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس ضمن میں ہم نے ایک جج صاحب سے گفتگو کی تھی ان کا کہناہے کہ جعلی مقدمات کی سماعت ان کی مجبوری ہے کیونکہ جعل ساز کا وکیل مقدمہ خارج ہونے کی صورت میں ان کی عدالت کا بائیکاٹ کردے گا اور بار کونسل ان کے استعفے کا مطالبہ کردے گی۔ یوں ان کا بوریا بستر ہمیشہ سر پر رہے گا۔ آخر وہ بھی گھر بار والے ہیں۔ کون چاہتا ہے کہ اس کے گھر کا سکون برباد ہو۔ اس کے بچوں کی تعلیم ادھوری رہ جائے۔
چیف صاحب! ہم کسی حد تک پٹواری کے محتاج ضرور ہیں مگر یہ ادھورا سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ ہم عدالتی نظام کے یرغمالی ہیں۔ طلبی پر پٹواری کسی بھی مقدمے کی رپورٹ عدالت میں پیش کردیتا ہے مگر عدالتیں پٹوا ری کی رپورٹ سے زیادہ پیشی در پیشی کے دل کھیل میں دلچسپی لیتی ہیں۔ انصاف میں تاخیر کا سبب جج صاحبان کی قانون سے لا علمی نہیں اس کی اصل وجہ عدالتی نظام کا ایسا نقص ہے جس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں۔
ایک جج کا کہناہے کہ جب کسی مقدمے کی فائل سامنے آتی ہے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مقدمہ جعل سازی پر مبنی ہے اور مدعی کا مقصد مدعا علیہ کو ذہنی اذیت اور مالی نقصان پہنچاکر اس کی جائداد کو اونے پونے داموں خریدنا ہے مگر اس مقدمے کی سماعت ان کی مجبوری ہے کیونکہ مقدمہ خارج ہوجائے تو سیشن کورٹ مقدمے کی سماعت کے بجائے واپس سول کورٹ بھیج دیتی ہے اس لیے سول کورٹ مقدمے کی سماعت اور شہادتیں لینے کی پابند ہوتی ہے آپ اسے سول کورٹ کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ قانون پر دیانت داری سے عمل کیا جائے تو انصاف کی فراہمی ممکن ہے اور عدالتیں مقدمات کے انبار کے باعث کراچی کے کچرے کا ڈھیر نہ بنیں۔
دیوانی مقدمہ اچھے بھلے آدمی کو دیوانہ بنادیتا ہے۔ یہ قانونی سقم نہیں عدالتی نظام کی خرابی ہے۔ محکمہ مال کی تصدیق کے بعد مقدمہ کی مزید سماعت کا کوئی جواز نہیں۔ جائداد کا اصل حق دار کون ہے اس کا فیصلہ تو محکمہ مال اور رجسٹری آفس ہی کرسکتا ہے۔
پاکستان میں پانی کی متوقع کمی کے بارے میں چیف صاحب کا فرمان ہے کہ یہ عالمی سازش ہے ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم ہر مسئلے کو عالمی سازش کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت سے ہر پاکستانی واقف ہے کہ پانی کا بحران ہمارے نام نہاد سیاست دانوں کی سازش ہے اگر پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تو پانی کی قلت ممکن ہی نہیں۔