’’تبدیلی‘‘ امتحان گاہ میں

248

عارف بہار

تحریک انصاف کے سربراہ اور متوقع وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ساتھیوں اور ہمنواؤں کے لیے منزل کا تعین یہ کہہ کر کیا ہے کہ عوام تبدیلی کے نام پر تبدیلی کے لیے نکلے ہیں اور انہوں نے دو جماعتی نظام کو شکست دی ہے۔ عوام ہم سے روایتی طرز سیاست اور حکومت کی امید نہیں رکھتے اگر روایتی طریقہ اپنایا گیا تو عوام ہمیں بھی غضب کا نشانہ بنائیں گے۔ انہوں نے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عوام آپ کا طرزِ سیاست دیکھیں گے اور اس کے مطابق ردعمل دیں گے میں خود مثال بنوں گا اور آپ کو مثال بننے کی تلقین کروں گا۔ ایک ایسے معاشرے میںآغازِ سفر پر عمران خان کے یہ خیالات ناقابل یقین ہیں جہاں تاریخ میں دور تک بہت سی مقدس اور پرکشش اصطلاحات اور نعروں کے کتبے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں بہت سی اصطلاحات اور نعرے عوام کے جذبات کو بھڑکانے، مسندِ اقتدار تک پہنچنے، اقتدار کو دوام بخشنے، عوام کی توجہ ہٹانے یا بانٹنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد جب ان نعروں کو میزان عمل پر پرکھا اور جانچا گیا تو پلڑا کلی طور پر خالی تھا اور معلوم ہورہا تھا کہ گزر جانے والوں نے یہ نعرہ محض وقت گزارنے کے لیے لگایا تھا۔ وقت گزر گیا اور وقت گزارنے والے خود بھی گزر گئے تو نعرہ اور اصطلاح بھی فراموش کر دی گئی۔ جن نعروں اور اصطلاحات سے کبھی عوام کا خون جوش مارنے لگتا تھا جو عوام کے وجود میں کبھی بجلیاں بھر دیتا تھا اور ان پر جان دینے اور لینے کی جذباتی کیفیت طاری ہوا کرتی تھی وقت گزرنے کے بعد اس قدر بے تاثر ہوگیا کہ سماعتوں سے ٹکرانے کے باوجود بھی جذبات میں کوئی ہلچل پیدا کرنے کا باعث نہ بن سکا۔ اسلام، سوشل ازم، انصاف، احتساب، جمہوریت جیسی کون کون سی اصطلاحات اس ملک ومعاشرے میں ’’مس یوز‘‘ ہو کر اپنے رومانس سے محروم کی جاتی رہیں۔ عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ بھی انہی میں ایک ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے دوجماعتی نظام کو فروغ دینے کی سوچ اُبھری اور اس ضرورت کے تحت پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد میدان میں اترا۔ دوجماعتی نظام کی ضرورت کے احساس کے ساتھ ہی اس نظام کو رد کرنے کی سوچ بھی پیدا ہوئی۔ 1988 کے انتخابات میں جہاں پیپلزپارٹی اور آئی جے آئی نے میدان گرمایا وہیں ائر مارشل اصغر خان اور مولانا شاہ احمد نورانی نے عوامی اتحاد بنا کر دو جماعتی نظام کے فلسفے کو چیلنج کرنے کی ٹھان لی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ ائر مارشل اصغر خان لاہور میں میاں نواز شریف میں ضمانت ضبط کروا بیٹھے اور مولانا شاہ احمد نورانی بھی ناکام ٹھیرے۔ یوں دو جماعتی نظام کو چیلنج کرنے والی یہ کوشش ناکام ہوئی اور دوجماعتی نظام بدستور فروغ پزیر رہا۔ نوے کی دہائی کے ہر الیکشن میں اس نظام کو چیلنج کرنے کی کوششیں بھی جا ری ہیں۔ طاہر القادری کی عوامی تحریک اور قاضی حسین احمد کا اسلامک فرنٹ دوجماعتی نظام کا فسوں توڑنے ہی کی کوششیں تھیں یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ بااثر اور مالدار سیاسی اشرافیہ اور اس کے خوان نعمت سے فیض یاب ہونے والے اخبار نویسوں نے ’’تیسری قوت‘‘ کے نعرے کو تیسری جنس کے مصداق قرار دے کر ایک مذاق بنا ڈالا کہ لوگ اس اصطلاح سے دامن بچانے لگے۔
دو جماعتوں کو ایک ہی سکے کے دورخ قرار دینے والوں کے مقابلے میں چھوٹی اور بڑی برائی اور دائیں اور بائیں بازو کا فلسفہ خوب بیچا گیا۔ یہاں تک کہ دو جماعتی نظام میں دراڑ ڈالنے والوں کو میڈیا میں ’’نکو‘‘ اور مجنوں ثابت کر کے معاشرے میں تنہا کیا جاتا رہا۔ کئی ایک اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے پر مجبور کیے جاتے رہے۔ کئی ایک کے لیے اس کا نعرہ اور رومانس ہی تیشۂ فرہاد بنا دیا گیا۔ اس ماحول میں عمران خان نے سیاست کے خار زار میں تیسری قوت کے بجائے تبدیلی کے نام پر قدم رکھا اور گرتے پڑتے اب وہ مسند اقتدار کے قریب پہنچ ہی گئے ہیں۔ اس راہ میں ہر وہ حربہ اختیار کیا جاتا رہا کہ جو ماضی میں دوجماعتی نظام کی دیوار میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں کرنے والوں کا مقدر ٹھیرا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے نعر�ۂ تبدیلی کا مذاق اُڑانے کے لیے انہیں ’’تبدیلی خان‘‘ کا نام دیا گیا مگر وہ خاصے سخت جان نکلے۔ وقت کچھ یوں بدل کر رہ گیا ہے کہ اب عمران خان کے نعرے اور دعوے میزان عمل پر تلنے جارہے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں ان کا اسٹائل گورننس کا آغاز ثابت کر دے گا کہ بائیس برس کا سفر کوچہ نوردی تھا یا واقعی وہ تبدیلی کے لفظ کو حرز جاں بنائے ہوئے تھے۔ وہ بائیس برس تک جس تبدیلی کا ورد کرتے رہے ہیں لوگ اسے حکومتی اقدامات میں، معاشرے میں، دفاتر میں، سسٹم میں جابجا تلاش کریں گے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کی حرکات وسکنات کی خورد بین سے اسے دیکھتے رہیں گے۔ لوگ مایوس ہوگئے تو ایک اور اصطلاح یعنی تبدیلی بھی بے اثر اور بے توقیر ہونے والی اصطلاحات کے قبرستان میں پہنچ جائے گی۔ ایک اور خواب ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔ عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہے مگر قدم قدم پرمصلحت اور مجبوری کے پہاڑ بھی کھڑے ہیں۔ اب تبدیلی اشتہاروں کے ذریعے عوام پر ٹھونسنے کے بجائے چہار سو بکھری ہوئی نظر آنی چاہیے۔ تبدیلی کو ثابت کرنے کے لیے محققین کے مقالوں، وکلا کے دلائل، قلم کاروں کے مضامین کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تبدیلی آئی تو وہ خود بولتی ہوئی نظر آئے گی کیوں کہ تبدیلی انقلابی ہو یا تدریجی بولتی ہے۔ اسے کسی ترجمان، شارح اور گائیڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔