جاوید شاہین سے آغاز کرتے ہیں
ایسا کیوں ہوتا ہے
کوئی کام ہونے ہی والا ہوتا ہے
محنت کا پھل ملنے والا ہوتا ہے
مگر نہیں ملتا
خوشی سے بھرا دل
اداسی سے بھر جاتا ہے
ختم ہونے والا سفر پھر سے شروع ہوجاتا ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ قوانین کا نفاذ انسانوں کو سدھانے کے لیے اور الیکشن کا انعقاد حکمرانوں کو سنوارنے، ان کی اصلاح کرنے یا پھر انہیں سزا دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ہر الیکشن کے بعد بے ایمان تاجر، نا انصافی کرنے والے جج، رشوت لینے والے اہلکار، جائداد بنانے والے سپہ سالار اور بدعنوان سیاست دان ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے میں نئے حکمران کا ہاتھ بٹانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اسی نعرے کی با آواز بلند تکرار کرنے لگتے ہیں جو آنے والے حکمران نے وقت کی دھتکار سے اخذ کیا ہو۔ جنہوں نے سابقہ حکومت کے سابقہ بیانیے کو دیوتا کا اوتار قرار دیتے ہوئے اسے نافذ کرنے کی کوشش کی تھی اب اس پر لعنت بھیجتے ہوئے نئے بیانیے کو تیز آنچ دینے کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اپنے بیانیے کی تکمیل کے لیے نیا حکمران بے ایمان تاجروں، ناانصافی کرنے والے ججوں، رشوت لینے والے اہلکاروں، جائداد بنانے والے سپہ سالا روں اور بد عنوان سیاست دانوں کی مدد حاصل کرتا ہے اور اقتدار کے حصول کے بعدان کا محتاج رہتا ہے۔ کیا ایسا حکمران عوام کو کچھ دے سکتا ہے؟ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ایسا حکمران جو سپہ سالاروں، منصفوں، خلائی مخلوق، فرشتوں اور الیکشن والے دن سوئے رہنے والے چیف الیکشن کمیشن کے تعاون سے اقتدار میں آتا ہے عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
سفر اس لیے رائیگاں ہوجاتے ہیں، اداسی بھرے دن اس لیے ختم نہیں ہوتے کہ کاسمیٹک اقدامات کے علاوہ نئے آنے والے حکمران کا بیانیہ بھی سابقہ حکمران کا چربہ ہوتا ہے۔ سابقہ بیانیے کو بودا اور مہمل کہنے والے قومی ہیرو کا بیانیہ بھی اتنا ہی فرسودہ اور پرانا ہوتا ہے جتنا پچھلے تاجر اور کرپٹ حکمرانوں کا۔ 25جولائی کو ہونے والے الیکشن میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے۔ بلوچستان اور خیبر پختوان خوا میں قتل وخون الیکشن کو لہو لہوکرنے میں پیش پیش رہے۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک خود کش دھماکے کے نتیجے میں بلوچستان اسمبلی کے امیدوار اسلم رئیسانی سمیت 150 افراد شہید ہوگئے۔ خیبر پختوان خوا میں ایک بم دھماکے کے نتیجے میں ہارون بلور کو اڑا دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنما اکرم درانی دو مرتبہ قاتلانہ حملے کی زد میں آئے۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیا میرا میں لڑکیوں کے بارہ اسکول دھماکوں سے اڑا دیے گئے۔ پہلے کہا گیا کہ یہ دہشت گرد مقامی ہیں بعدازاں ثابت ہوا کہ افغانستان سے آئے تھے۔ اس طرح کے حملے افغانستان میں قابض امریکا کی تائید اور معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکا کی تشکیل کردہ حکومت اور خود امریکا سے اس باب میں احتجاج کرنے اور ردعمل دینے کے بجائے ہم امریکا کے لیے افغانستان میں امن معاہدے پر کام کررہے ہیں تاکہ پاکستان کی دہلیز پر افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی مستقبل میں بھی یقینی رہے۔ امریکا کے ساتھ اتحاد کا جو بیانیہ پرویز مشرف، زرداری اور نواز شریف کا تھا وہی عمران خان کا ہے۔ 26جولائی کو اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا تھا ’’امریکا سے ایسے متوازن تعلقات چا ہتے ہیں جن سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو۔‘‘ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ طاقتور اور کمزور کے درمیان متوازن تعلقات نہ کبھی ممکن ہوسکے اور نہ کبھی ممکن ہوسکیں گے۔ وہ بھی اس صورت میں جب مسلم اور پاکستان دشمنی میں بھارت امریکا کا قدرتی اتحادی ہے اور دونوں مسئلہ کشمیر کو دفن کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عمران خان بھی پرویز مشرف، زرداری اور نواز شریف کی طرح افغانستان اور بھارت میں امریکی منصوبوں میں رنگ بھرنے پر آمادہ ہوں گے۔
اسی ماہ کی دو تاریخ کو متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ملک کو بڑے پیمانے پر نج کاری کا سوچنا ہوگا تاکہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے درکار لازمی مالیاتی وسائل حاصل کیے جاسکیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نج کاری کی صورت میں آئی ایم ایف کو بھی اچھے معاہدے کے لیے قائل کیا جاسکے گا۔ یہ وہی بیانیہ ہے 1991 میں نواز حکومت جس کی پر زور حامی تھی اور جس پر عمل کرنے کو پاکستان کے معاشی مسائل کا حتمی حل گردانتی تھی۔ نج کاری کو اپنی معاشی پالیسی کا اہم ہدف قرار دینے والی نواز حکومت نے 1991 ہی میں نج کاری کمیشن قائم کیا تھا۔ نج کاری کے عمل کی افادیت یہ بیان کی گئی تھی کہ اس عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کا 90فی صد قرضوں کی ادائیگی اور باقی 10فی صد ملک میں غربت کے خاتمے پر خرچ کی جائے گی۔ 1991 سے اپریل 2006 تک مختلف حکومتوں نے 160 اداروں کی نج کاری کے عمل کو مکمل کیا یا اس کی منظوری دی جس کے نتیجے میں 395.241 ارب حاصل ہوئے لیکن اس عمل کے بعد بھی نہ تو پاکستان کے قرضے ختم ہوئے اور نہ ملک سے غربت۔ ایک ناکام سرمایہ دارانہ عمل کے ذریعے عمران خان پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
آخر میں ساحر لدھیانوی:
ہر قدم مرحلہ دار وصلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے
نسل در نسل انتظار رہا
قصر ٹوٹے نہ بے نوائی گئی
زندگی کا نصیب کیا کہیے
ایک سیتا تھی جو ستائی گئی