میاں نواز شریف اور جاوید چودھری کا جذباتی چورن

620

چورن فروخت کرنے والے صرف گلیوں، محلوں، بازاروں اور بسوں ہی میں نہیں ہوتے۔ اخبارات میں بھی سیاسی، لسانی اور جذباتی چورن فروخت کرنے والے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ البتہ ہمارے زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر کسی نہ کسی قسم کا چورن فروخت کرتے ہیں۔
جذباتی چورن کی بازار کاری یا Marketing کی ایک مثال معروف کالم نویس جاوید چودھری کا حالیہ کالم ہے۔ جاوید چودھری نے کالم کے ابتدائی حصے میں میاں صاحب کو اس بات پر لتاڑا ہے کہ انہوں نے جرنیلوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ چودھری نثار نے جنرل راحیل سے وعدہ کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو ہتھکڑی نہیں لگائی جائے گی مگر جنرل پرویز کو ہتھکڑی لگائی گئی۔ جاوید چودھری کے بقول میاں صاحب نے اپنے انٹیلی جنس بیورو (IB) سے آئی جے ٹی کی جاسوسی کرائی اور اس کی بنیاد پر فوج کی اعلیٰ قیادت سے کہا کہ میں آپ کا سپریم کمانڈر ہوں، آپ کے ہوتے ہوئے میرے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ جاوید چودھری کے دعوے کے مطابق فوج کی طرف سے جو سمری اور جو فائل بھیجی جاتی اسے اسحق ڈار روک لیتے۔ فوج کی جانب سے فون آتا تو کہہ دیا جاتا کہ ’’صاحب‘‘ یعنی اسحق ڈار ابھی سیٹ پر نہیں ہیں۔ یہ سب بتا کر جاوید چودھری نے میاں صاحب سے پوچھا ہے کہ آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ جاوید چودھری کے بقول میاں صاحب، ان کا خاندان اور ان کی جماعت جن حالات سے دوچار ہیں وہ میاں صاحب کی اپنی تخلیق ہیں۔
آپ پریشان نہ ہوں، جاوید چودھری کے یہ خیالات ہرگز بھی تنقیدی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ان خیالات کے ذریعے جذباتی چورن فروخت کرنے کے لیے فضا تیار کی ہے۔ جاوید چودھری یہ باتیں نہ کہتے تو پڑھنے والے خیال کرتے کہ جاوید چودھری شریف خاندان کی چورن کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ بہر حال اس کے بعد جاوید چودھری نے مہربان قدر دان کی صدا لگا کر پورے کالم میں جذباتی چورن فروخت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی ہے۔ جاوید چودھری کے بقول میاں صاحب کو پہلے دن جیل میں پلنگ نہیں دیا صرف میٹریس دیا گیا۔ میاں صاحب کے کمرے میں اے سی نہیں تھا صرف پنکھا تھا، میاں صاحب کا واش روم صاف ستھرا نہیں تھا، چناں چہ میاں صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ 25 جولائی کو انتخابات کے بعد میاں صاحب کی طبیعت پھر خراب ہوگئی، میاں صاحب اسپتال منتقل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے کیپٹن صفدر اور مریم کی بات بھی نہیں مانی۔ بہرحال ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے آکر میاں صاحب کو سمجھایا تو وہ اسپتال جانے پر راضی ہوگئے۔ اب میاں صاحب کا علاج ان کے ذاتی معالج کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ ان کی ادویات تبدیل کردی گئی ہیں، انہیں خون پتلا کرنے کی دوائی دی جارہی ہے، جاوید چودھری کے بقول ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ جاوید چودھری نے کالم میں بتایا ہے کہ مریم اور کیپٹن صفدر کی حالت بھی اچھی نہیں۔ جاوید چودھری کے بقول انہیں ایک صاحب نے بتایا کہ انہوں نے مریم نواز سے زیادہ ’’ہائی فائی‘‘ خاتون نہیں دیکھی مگر وہ ایک ہفتے میں سکڑ گئی ہیں۔ ان کے شوہر صفدر کا وزن بھی کم ہورہا ہے۔ جاوید چودھری نے یہ سب بتا کر اپنا کالم ان سطور پر ختم کیا ہے۔
’’میں نے یہ داستان سنی تو میں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگی۔ میں دل سے سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی غلطیاں اپنی جگہ مگر وہ یہ سلوک ڈیزرو نہیں کرتے۔ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ عمران خان الیکشن جیت چکے ہیں، ہدف پورا ہوچکا ہے، لہٰذا نواز شریف کو اب گھر جانے کی اجازت مل جانی چاہیے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 31 جولائی 2018ء)
جاوید چودھری کے اس کالم کا ایک مفہوم یہ ہے کہ میاں نواز شریف یا ان کے اہل خانہ نے ملک و قوم کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا۔ بلکہ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ جرنیلوں اور میاں نواز شریف کی کش مکش کا حاصل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے کسی باشعور شخص کو جرنیلوں یا میاں صاحب سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ پاناما لیکس جرنیلوں کی تخلیق نہیں تھیں۔ میاں صاحب نے لندن میں اربوں روپے کے فلیٹس بھی جرنیلوں سے پوچھ کر نہیں خریدے تھے اور نہ ہی جرنیلوں نے میاں صاحب کے بچوں پر یہ بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا کہ فلیٹس کو کرائے کے فلیٹس قرار دیا جائے یا انہیں اپنی ملکیت قرار دیا جائے۔ اقامہ کی جعل سازی بھی میاں صاحب کا اپنا ’’کارنامہ‘‘ تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں نواز شریف ’’سیاسی قیدی‘‘ کی حیثیت سے نہیں ایک مجرم کی حیثیت سے جیل میں ہیں۔
اس صورتِ حال کا مفہوم واضح ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پاکستان نہیں آئے تھے کہ ان کو فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھیرایا جاتا۔ انہیں جیل ہی میں جانا تھا اور مجرموں کے لیے جیل بہرحال پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی تو ویسے بھی نظریاتی اور انقلاب ہیں۔ چناں چہ وہ جیل کے حالات پر روتے پیٹتے اچھے نہیں لگتے۔ تسلیم کہ میاں صاحب بیمار ہیں، مگر جیلوں میں تو ہزاروں لوگ بیمار ہوتے ہیں، ان کے لیے تو ہم نے آج تک کسی کو ماتم کرتے نہیں دیکھا۔ جاوید چودھری بتائیں کہ انہوں نے آج تک کتنے قیدیوں کے ساتھ جیل میں ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھائی ہے؟ آخر میاں نواز شریف میں ایسی کیا بات ہے کہ ان کے لیے جاوید چودھری خون کے آنسو رو رہے ہیں۔
جیل ایک ہولناک تجربہ ہے۔ ہم ایسے کئی لوگوں سے آگاہ ہیں جو جیل گئے تو ان کا خاندان تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کے خاندان کی معاشی زندگی ختم ہوگئی۔ چناں چہ ان کی نرینہ اولاد میں سے بعض لڑکے چور اُچکے بن گئے، یہاں تک کہ بعض مجرموں کی بیٹیوں نے معاشی حالات سے تنگ آکر جسم فروشی شروع کردی۔ ہزاروں خاندان ایسے ہوں گے جو اپنے قیدیوں کے مقدمات لڑتے لڑتے اپنی زمین جائداد سے محروم ہوگئے۔ جیلوں میں سیکڑوں قیدی ایسے ہوتے ہیں جن سے ملنے کے لیے کوئی نہیں آتا اور ان کا اکیلا پن انہیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے۔ میاں نواز شریف ان کی دختر نیک اختر جیل میں صاف ستھرا کھانا کھارہی ہیں، جوس پی رہی ہیں، اس کے برعکس جیل میں موجود لاکھوں قیدی ایسا کھانا کھاتے ہیں جسے جانور بھی نہیں کھا سکتے۔ وہ ایسے واش روم استعمال کرتے ہیں جن کی بدبو دماغ کو پھاڑ دینے والی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ان حالات میں سے کس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جاوید چودھری میاں نواز شریف، مریم نواز شریف اور کیپٹن صفدر کو جیل سے رہا کرانا چاہتے ہیں تو ضرور کرائیں مگر پھر انہیں جیل سے دوسرے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ جیل میں بہت سے لوگ نواز شریف کی طرح بیمار ہوتے ہیں، بہت سی خواتین مریم نواز کی طرح ’’ہائی فائی‘‘ ہوتی ہیں۔ آخر جاوید چودھری سیہ کیوں چاہتے ہیں کہ امیروں اور طاقت وروں کے لیے ایک قانون ہو اور غریبوں اور کمزوروں کے لیے دوسرا قانون ہو؟ اتفاق سے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے جرم کی نوعیت انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔ انہوں نے اپنے افعال سے معاشرے اور ریاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکمران ہو کے معاشرے کے لیے بدترین مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہ احتساب صرف نواز شریف کا نہیں بلکہ جرنیلوں، ججوں، دوسرے سیاست دانوں اور صحافیوں کا بھی ہونا چاہیے۔ لیکن احتساب کے حوالے سے جذباتی چورن فروخت کرنے کا عمل مجرموں کے لیے ہمدردی پیدا کرنے کا سبب ہے اور یہ عمل بجائے خود ایک بہت بڑا اور بھیانک جرم ہے۔ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا۔
کافر کی موت سے بھی لرزتاہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر
اس شعر کے مفہوم سے استفادہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ مجرموں کی سزاؤں پر ماتم کریں انہیں اپنے ایمان، قانون پسندی، انصاف دوستی اور اپنی حب الوطنی کا جائزہ لینا چاہیے۔ انسانی معاشروں میں ہیرو اور ولن کا فرق بہت واضح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی معاشرہ اپنے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو نہیں بناتا مگر جاوید چودھری اور ان جیسے بہت سے لوگ اس روایت کو بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ ولن کو مجبور، بے بس، مقہور ظاہر کرکے انہیں ہیرو بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ صورتِ حال معاشرے کو زہر کا انجکشن لگانے کے مترادف ہے۔
جاوید چودھری کا چورن ان لوگوں کے لیے اور بھی تکلیف دہ ہے جو شریفوں کی پوری تاریخ پر نظر رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف ایک زمانے میں جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہا کرتے تھے مگر اب انہیں اپنا یہ روحانی باپ ایک ولن نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں صاحب کے رویے میں تبدیلی جنرل ضیا الحق کے مرنے سے پیدا ہوئی۔ جنرل ضیا الحق اپنی تمام تر برائیوں کے ساتھ اگر آج بھی زندہ ہوتے تو شاید وہ آج بھی میاں صاحب کے ’’روحانی باپ‘‘ ہی ہوتے۔ قاضی حسین احمد کبھی میاں صاحب کے لیے اتنے ’’محترم‘‘ تھے کہ وہ اپنے گھریلو تنازعات میں قاضی صاحب کو ثالث بنایا کرتے تھے مگر پھر میاں صاحب نے قاضی صاحب پر 10 کروڑ روپے لینے اور مزید 20 کروڑ کا مطالبہ کرنے کا رکیک الزام لگایا۔ علامہ طاہر القادری کبھی میاں صاحب کے ’’محبوب‘‘ تھے۔ چناں چہ میاں صاحب نے ایک مرتبہ طاہر القادری کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے عمرہ کرایا اور انہوں نے ایک بار قادری صاحب سے پوچھا کہیں آپ امام مہدی تو نہیں۔
باقی صفحہ9نمبر1
شاہنواز فاروقی
مگر اب میاں صاحب قادری کو توہین اور تضحیک سے یاد کرتے ہیں۔ روزنامہ دنیا کے کالم نویس بلال الرشید نے چند روز پیشتر میاں صاحب کے فرزند کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے۔ بلال الرشید کے بقول ان کے والد کی ایک روز ہوائی اڈے پر میاں صاحب کے فرزند حسین نواز سے ملاقات ہوئی تو حسین نواز نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خلاف ایسی گفتگو کی کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ (روزنامہ دنیا۔ 31 جولائی 2018ء) سعودی عرب کا شاہی خاندان جیسا بھی ہے شریفوں کا محسن ہے مگر حسین نواز نے اس کے خلاف گفتگو کرکے ثابت کردیا کہ محسن کشی ان کے خون میں ہے۔ باپ پر پُوت پتا پر گھوڑا، زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ خبر ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز کے ریڈ وارنٹ جاری ہوگئے ہیں۔ اگر میاں صاحب کے بیٹے گرفتار ہو کر پاکستان آگئے اور انہیں بھی جیل کی سزا ہوگئی تو پھر شاید جاوید چودھری ان جیسے میاں صاحب کے بیٹوں کے لیے بھی جذباتی چورن فروخت کرتے نظر آئیں گے۔ بلاشبہ قومیں اسی طرح توانا ہوتی ہیں۔