شیخ رشید اور سمندر کی لہریں

369

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ ایک زمانہ تھا کہ عمران خان لال حویلی کے شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بنانے کو بھی تیار نہ تھے لیکن اب دونوں میں گاڑھی چھن رہی ہے۔ شیخ صاحب مردم شناس سیاستدان ہیں انہوں نے بہت پہلے تاڑ لیا تھا کہ (ن) لیگ سے بیوفائی کے بعد انہیں اگر کوئی سہارا دے سکتا ہے تو وہ صرف عمران خان ہیں۔ انہوں نے خان کی چاپلوسی جاری رکھی یہاں تک کہ وہ ان کی نظروں میں سما گئے اور 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت سے اپنی کھوئی ہوئی نشست دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ورنہ ان کے حلقے کے ووٹروں نے تو انہیں جنرل مشرف کا یار اور لال مسجد آپریشن میں حکومت کا سہولت قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ عمران خان ان کی مدد کو نہ آتے اور پی ٹی آئی کے کارکن انہیں سپورٹ نہ کرتے تو وہ پچھلا الیکشن نہیں جیت سکتے تھے، الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے خان کا دامن مضبوطی سے تھام لیا وہ اس کے طویل دھرنے میں بھی اپنی یک رکنی عوامی مسلم لیگ کے ساتھ دل و جان سے شریک رہے اور گاہے گاہے اپنی چرب زبانی کا جادو جگاتے رہے۔ خان نے ’’دھاندلی زدہ‘‘ اسمبلی پر لعنت بھیجی تو شیخ صاحب بھی اسمبلی پر تبّرا کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ پی ٹی آئی ارکان نے تو اپنے استعفے بھی اسپیکر کو پیش کردیے تھے لیکن شیخ صاحب سیانے تھے وہ جانتے تھے کہ تھوک کر چاٹنا پڑے گا اس لیے انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان تو کیا لیکن استعفے کو ہوا نہ لگنے دی۔ شیخ صاحب واحد سیاستدان ہیں جو پورے شدومد کے ساتھ ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگانے کی بات کر رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ ابھی انتخابات نہیں ہونے چاہئیں، انہیں سال دو سال کے لیے موخر کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن کسی نے بھی ان کی تائید نہ کی چیف جسٹس نے کہا کہ مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ان کا مشن ہے وہ اس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہونے دیں گے، فوجی ترجمان نے بھی بروقت انتخابات کو قومی تقاضا قرار دیا تو ان کی بولتی بند ہوگئی۔ راز کی بات یہ ہے کہ شیخ صاحب کو خدشہ تھا کہ کہیں پلاننگ میں کوئی کسر نہ رہ جائے اور ان کا ہیرو ہاتھ ملتا رہ جائے لیکن جو قوتیں وقت پر انتخابات کرانا چاہتی تھیں انہوں نے پورا بندوبست بھی کر رکھا تھا۔ شیخ صاحب کو بھی اطمینان دلایا گیا کہ گھبراؤ نہیں تم بھی جیت جاؤ گے۔ خود چیف جسٹس شیخ صاحب کے حلقے میں گئے اور اس زیر تکمیل چلڈرن اسپتال کا دورہ کیا جو برسوں سے ویران پڑا تھا اور شریفوں کی حکومت محض شیخ صاحب کی مخالفت میں اس پر پیسہ لگانے کو تیار نہ تھی۔ محترم چیف جسٹس نے منصوبہ مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ شیخ صاحب قاضی القفاۃ کے ہمراہ تھے یہ انتخابات میں ان کی کامیابی کی جانب پہلا قدم تھا۔ پھر الیکشن سے چار روز پہلے ان کے مضبوط ترین حریف حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کیس میں قید اور نااہلی کی سزا ہوگئی اور ان کے لیے میدان بالکل صاف ہوگیا۔ یہ اور بات کہ الیکشن کمیشن نے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے حنیف عباسی کی سزا کے بعد اس حلقے کا الیکشن روک لیا اور شیخ صاحب کو دو حلقوں میں سے صرف ایک حلقے میں اپنی کامیابی پر اکتفا کرنا پڑا۔
شیخ صاحب عمران خان کی طرح جس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے تھے اب کامیاب ہو کر وہ پھر اس کے رکن بن گئے ہیں اور بنی گالا میں خانِ اعظم کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں ’’کہو یار کیسی رہی!‘‘ سنا ہے کہ خان تو انہیں ریلوے کا وزیر بنانا چاہتا ہے لیکن خود انہوں نے وزارتِ داخلہ کی فرمائش کردی ہے کہ یہ سب سے تگڑی وزارت سمجھی جاتی ہے اور شیخ صاحب اس وزارت کے ذریعے اپنے تمام حریفوں سے حساب چکانا چاہتے ہیں لیکن خان نے ان سے اس وزارت کی حامی نہیں بھری ہے کہ نمبروں کی گیم میں اسے ابھی بہت سے گروپوں کو ایڈجسٹ کرنا ہے جب کہ وزارتِ داخلہ تو پی ٹی آئی کا حق ہے۔ بہر کیف شیخ صاحب نے اِن خبروں کی تردید کی ہے، انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کسی وزارت کی فرمائش نہیں کی اگر خان صاحب نے انہیں سمندر کی لہریں گننے پر لگادیا تو وہ یہ ’’وزارت‘‘ بھی قبول کرلیں۔ سمندر کی لہریں گنا بھی آسان کام نہیں اس میں بھی جان جوکھم میں ڈالنا پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی انہیں اس کام پر لگا رکھا تھا اور وہ اس کے ترجمان کی حیثیت سے ہر روز سیاست کے سمندر کی لہروں کا حساب دیا کرتے تھے لیکن لال مسجد آپریشن کے معاملے میں ان کا سارا حساب کتاب فسطاکھا گیا اور عوام کی نفرت کے سبب انہیں 2008ء کے الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر اب کی دفعہ خان نے بھی انہیں سمندر کی لہریں گنے پر لگادیا تو یہ سودا انہیں زیادہ مہنگا پڑے گا کہ سیاست کے سمندر میں اپوزیشن کی تندو تیز لہریں موجیں مار رہی ہیں اور وہ خان کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اشارہ کررہی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیخ صاحب ان لہروں کو گنے کے بجائے ان کا ایک تھپیڑا بھی نہ سہہ سکیں اور ریلے میں بہہ جائیں! ابھی تو حنیف عباسی والے حلقے کے ضمنی انتخاب پر بھی پھڈا پڑنے والا ہے، شیخ صاحب یہاں سے اپنے بھتیجے راشد شفیق کو جتوانا چاہتے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے کارکن اسے اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ خان صاحب کا بھی امتحان ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنی جماعت کا ساتھ دیتے ہیں یا اپنے یار کا!