جمہوریت‘ معیشت‘ دعوت

248

آج کی دُنیا میں امور سلطنت سنبھالنے کے لیے مختلف نظام ہائے حکومت رائج ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ مقبول اور محبوب مغربی طرزِ جمہوریت ہے، اس کے علاوہ کہیں کہیں فوجی جنرلز بھی حکومت کررہے ہیں اور کچھ ممالک میں بادشاہت کی طرز کا نظام سلطنت ہے جہاں کارِ حکومت عموماً ایک ہی خاندان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ لیکن زیادہ تر ممالک میں تشکیل حکومت کا سلسلہ جمہوریت کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کے سوتے مغربی طرز فکر، مغربی خیالات و نظریات اور پھر مغربی میڈیا سے پھوٹتے ہیں اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ آزاد معیشت، اظہار رائے کی آزادی، انسانی حقوق کی بحالی وغیرہ کو بھی ملا دیا جاتا ہے اور پھر یہ بھی درس دیا جاتا ہے کہ معاشی ترقی، غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی اور ملک میں مجموعی خوشحالی کے لیے ایک جمہوری نظام بہت ضروری ہے جہاں سیاسی ادارے قائم ہوں، مختلف سیاسی پارٹیاں ہوں، ایک متعین مدت کے بعد انتخابات ہوں، تمام سیاسی پارٹیاں عوام کے سامنے اپنا اپنا منشور اور منصوبہ پیش کریں، ملک اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنا اپنا ارادہ اور پروگرام سامنے لائیں اور اس طرح اکثریتی ووٹوں کے ذریعے ایک مخصوص طریقہ کار اور آئینی و دستوری رہنمائی کے مطابق حکومت تشکیل پائے۔
لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوریت اور آزاد معیشت نے انسان کو کچھ نہیں دیا ہے۔ الیکشن ایک کاروبار بن گیا ہے جس میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور کاروباری حضرات اور کاروباری ادارے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں پر رقم خرچ کرتے ہیں دوسرے الفاظ میں اُن پر سرمایہ کاری کرتے ہیں تا کہ اسمبلی میں پہنچ کر وہ اُن کے کاروباری مفادات کا خیال رکھیں۔ مثلاً امریکا میں یہ عام رائے ہے کہ اسلحہ کی کھلے عام فروخت نہیں ہونی چاہیے مگر اسلحہ بنانے والی کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ یہ عام رائے اسمبلی کا قانون نہیں بن پاتی اس کے علاوہ بھی مسلسل جمہوری نظام کے بعد غریبی اپنی جگہ موجود ہے، غریب اور امیر میں فرق بڑھ رہا ہے ایک طرف ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے دوسری طرف غریبوں اور حکومت کی امداد پر زندگی گزارنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف چین کی مثال سب کے سامنے ہے، جہاں گزشتہ پچیس تیس سال سے معیشت نے نمایاں شرح سے ترقی کی ہے، چین کی مصنوعات دُنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں لیکن وہاں ملک کا نظام ایک پارٹی ’’کمیونسٹ پارٹی آف چائنا‘‘ کے ہاتھ میں ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ ملک میں پالیسیوں کا تسلسل، منصوبوں کی تکمیل اور نظام کو متوازن طور پر چلانے کے لیے ایک پارٹی نظام ضروری ہے۔ نیشنل پیپلز کانگریس اور دوسرے اداروں میں اس پارٹی کے افراد موجود ہوں گے۔ دوسری مثال جنوبی کوریا کی ہے جہاں ایک فوجی جنرل نے 1963ء سے 1979ء تک حکومت کی اور وہاں کی معاشی ترقی جو اس زمانے میں ہوئی اس کو ایک معجزہ کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی بے شمار خرابیوں اور گندگیوں کے ساتھ ایک لنگڑا لولا جمہوری نظام چل رہا ہے جس میں ایک طرف جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی خانوادے سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں اور سیاست کے ذریعے مزید طاقتور ہورہے ہیں، دوسری طرف عوام مذہبی، لسانی اور برادریوں میں تقسیم ہیں اور الیکٹ ایبلز کے پیچھے چلنے والی ہے اور ہر جگہ ایک لین دین ہے، امیدوار اس لیے خرچ کررہا ہے کہ جیتنے کے بعد اس خرچ کو منافع کے ساتھ وصول کرے گا۔ اسی طرح برادری اس لیے ووٹ دیتی ہے کہ اس کے مفادات پورے ہوں انفرادی ووٹر بھی یہ سوچ کر ووٹ دیتا ہے کہ اس کو کیا فائدہ ہوگا۔ ایسے میں ہم الیکشن کے میدان کو دعوت کا میدان سمجھ کر اس میں اترتے ہیں اور اپنے اصول، اپنے نظریات اور نصب العین کو سامنے رکھ کر جذبہ اور خلوص کے ساتھ دن رات ایک کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا الیکشن ایک مختلف میدان عمل ہے، مثلاً وہاں ووٹر سے لے کر سیاسی پارٹی تک لین دین کا ایک سلسلہ ہے جب کہ دعوتِ دین میں یہ سلسلہ ہے ہی نہیں، مخاطب کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ بات کہنے والا مجھ سے کچھ نہیں مانگے گا جب کہ الیکشن کی تقریر سنتے وقت ووٹر کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ یہ امیدوار میرا کیا کام کرے گا۔ دوسرے دعوتِ دین میں کامیابی ناکامی کا کوئی تصور نہیں۔ آپ نے اپنی بات لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کردی، آپ کا کام ختم ہوگیا مثلاً الیکشن میں ہار اور جیت کا تصور موجود ہے اور باقاعدہ اس کا حساب لگایا جاتا ہے کہ کس پارٹی نے کتنی نشستیں حاصل کیں ہیں۔ تیسرے سیاسی کارکن کا ذہن سیاسی ہوتا ہے وہ عوامی ہوتا ہے۔ عوام کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے، عوام کے دل کی اور عوام کو خوش کرنے والی بات کرتا ہے۔ دعوتی ذہن یہ رویہ نہیں اپناتا، چوتھے سیاسی لیڈر ایک نعرہ لے کر میدان میں اُترتا ہے اور یہ نعرہ وقت کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے چاہے پاکستان ہو، برطانیہ ہو، انڈیا ہو یا امریکا، جب کہ ہمارا کوئی ایسا نعرہ نہیں۔
یہ وہ نکات ہیں جن پر ہم سب کو سوچنا چاہیے۔