انتخابات اور خوابیدگی کی قیمت 

225

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک انتخابات کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں بہت دلچسپ ریمارکس دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے روز میں نے تین بار چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہ ملا شاید و ہ سورہے تھے۔ ان کا سسٹم الیکشن کے دن بیٹھ گیا تھا پتا نہیں الیکشن کمیشن کس طرح چل رہا ہے۔ اچھا بھلا انتخابی عمل چل رہا تھا مگر چیف الیکشن کمشنر نے مہربانی فرمادی۔ ابھی تک تو ہارنے اور جیتنے والے دونوں فریق الیکشن کمیشن پر معترض اور ان کی کارکردگی سے نالاں وناراض تھے مگر اب اعلیٰ عدلیہ نے بھی الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اُٹھا دیا۔ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کا اپنا تعلق بھی عدلیہ سے رہا ہے اور وہ انتخابی نتائج سے ناخوش مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ اور فخریہ پیشکش ہیں۔ نگران وزیر اعظم سے چیف الیکشن کمشنر تک سب چہرے پارلیمان میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے مل کر تلاشے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب یہی دو سیاسی طاقتیں اپنے ہی تراشیدہ کرداروں سے ناراض ہیں۔ اس ناخوشی میں یہ دو جماعتیں ہی نہیں تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، ایم ایم اے سمیت سب غیر مطمئن ہیں۔ مسلم لیگ ن جیسی کچھ سیاسی جماعتیں تو پہلے ہی انتخابات کے حوالے سے اُدھار کھائے بیٹھی تھیں وہ ’’انا ولاغیری‘‘ کے رویے کے تحت پہلے ہی اس بات پر تلی ہوئی تھیں کہ صرف وہی کامیابی تسلیم ہوگی جو ان کے حصے میں آئے گی کسی دوسرے کی کامیابی کو کسی صورت قبول نہیں کرنا۔ اس مائنڈ سیٹ کو مزید تقویت اور جواز الیکشن کمیشن کے رویے اور نالائقی نے فراہم کیا۔
آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے اور فارم 45فراہم نہ کرنے سے دھاندلی کے تصور کو تقویت ملی۔ اب چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں یہ بتا کر ورط�ۂ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ الیکشن کے روز چیف جسٹس بھی ان سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ چیف الیکشن کمشنر اگر واقعی الیکشن کے روز لمبی تان کر سو گئے تھے اب قوم انتشار اور الزام واتہام کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے ساتھ اس خوابیدگی کی قیمت چکا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایک دن اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر اربوں کے فنڈز دیے تھے مگر شومئی قسمت کہ الیکشن کا دن ہی بہت برا گزار دیا گیا اور اب نتائج میں تاخیر، دوبارہ گنتی، حکم امتناعی کی صورت میں حکومت سازی میں تاخیر ہورہی اور قوم خوابیدگی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہے۔
اپوزیشن پہلے ہی انتخابات کو متنازع بنانے پر مصر تھی اب وہ سڑکوں پر نکل کر ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے چند روز قبل انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے
باہراحتجاج کیا۔ اس دورا ن کئی اپوزیشن راہنماؤں نے شعلہ بیانی کا بھرپور مظاہرہ کیا وہیں ان کے کارکنوں نے عدلیہ اور فوج کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا نام لے کر نعرے لگانے والوں کی وڈیو میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ اس احتجاج میں جہاں مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی، احسن اقبال، قمرالزمان کائرہ اور دوسرے راہنما شریک ہوئے وہیں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ شہباز، پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری نے شرکت سے گریز ہی کیا۔ اس احتجاج کی نمایاں شخصیت مولانا فضل الرحمن ہے تھے جو دو حلقوں سے شکست کھانے کے بعد منقا زیرپا ہیں۔ یہ شکست اس لیے بھی دل شکن ودل آزار ہے۔اسی لیے ان کے لہجے میں ایک مولانا بھاشانی بول رہا ہے۔ بنگال کے یہ شعلہ بیاں مقرر اپنی تقریروں سے ہجوم میں بجلیاں بھر دیتے تھے مگر کہاں مزدوروں اور کسانوں کی بات کرنے والے بنگال کے سرخ مولانا جو ہمیشہ اقتدار اور طاقت کے اُلٹے رخ چلتے تھے اور کہاں ہمارے مولانا جو ایم آر ڈی کے زمانے میں تھوڑی سی اپوزیشن کرنے کے بعد سے اقتدار کے پانیوں میں مسلسل تیر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی مظاہرے میں یوم آزادی نہ منانے کا اعلان بھی کیا۔ اسی مظاہر ے میں یہ حقیقت بڑی حد تک واضح ہوئی کہ مستقبل کی حزب اختلاف سخت گیر اور معتدل مزاج کے دوحصوں میں تقسیم ہوگی۔ سخت گیر وہ لوگ ہوں گے جو انتخابات میں اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں اور معتدل مزاج وہ ہوں گے جن کا اس سسٹم کے ساتھ کسی نہ کسی طور مفاد وابستہ ہوگا کچھ ایسے بھی ہیں جو سسٹم سے زخم کھانے کے باوجود باوقار انداز اپنائے ہوئے ہیں ان کی تنقید میں ذاتی دکھ اور غصہ غالب نہیں آرہا۔ اس طرز فکر وعمل کے حاملین میں سراج الحق نمایاں ہیں۔ آگے چل کر ان دونوں سوچوں کا صفحہ ایک ہو سکتا ہے مگر اس وقت یہ ایک کتاب کا حصہ تو ہیں مگر ایک صفحے پر ہرگز نہیں۔
اس مظاہرے میں ریاستی اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں نامزد افراد کی گرفتاریوں اور مقدمات کا معاملہ اب اگلی حکومت پر ڈال دیا گیا۔ اداروں کے خلاف یا وہ گوئی اور بدزبانی پر دہشت گردی کا مقدمہ شاید کچھ زیادہ ہی سخت ہو گیا ہے۔ اس معاملے کو معروف جمہوری معاشروں میں قائم روایات اور مقدمات کی روشنی میں آگے بڑھانا چاہیے۔ عدلیہ اورفوج کے خلاف نعرے بازی کہاں کہاں آزادئ اظہار کی دیوار سے جا ٹکرائی ہے؟ یہ جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔ اصل معاملہ اپوزیشن جماعتوں کی غیر ذمے داری کا ہے کہ انہیں اپنے کارکنوں کو اس رویے سے باز رکھنا چاہیے۔ اداروں کا تقدس پامال کرنے کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوا کرتے۔ اداروں ہی سے معاشرے تشکیل بھی پاتے ہیں اور معاشروں کی پہچان بھی ادارے ہی ہوتے ہیں۔ افراد کتنے ہی بااثر، طاقتور اور دولت مند کیوں نہ ہو مگر اداروں کے آگے ہیچ ہوتے ہیں اور اداروں کے آگے سر جھکانا ان پر لازم ہوتا ہے۔ افراد اداروں سے بڑے ہوجائیں تو پھر ایسے معاشروں کا مقدر انارکی اور مطلق العنانی بن جاتا ہے۔