گاڑی 12 مئی 2007ء ہی میں کھڑی ہے

179

کسی زمانے میں بڑے اعتماد سے جرائم پیشہ لوگ اور حکومتی عہدیدار یا سرکاری افران کہا کرتے تھے کہ کچھ بھی کرلو ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا، اور ہوتا بھی یہی تھا۔ پھر وہ دور آیا جسے لوگ جدید دور، میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور کہتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اب کوئی بچ نہیں سکتا۔ اب بڑے بڑے لوگ پکڑے جائیں گے کوئی نہیں بچے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے اب بھی طاقتور اور با اثر لوگوں کے دعوے میں رتی برابر کمی نہیں ہوئی ہے اور ان کے دعوے بالکل درست ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور آر ٹی ایس، فارم 45 وغیرہ تو اب قصہ پارینہ ہوگئے لیکن ذرا کراچی کے سانحہ 12 مئی کے بارے میں ہونے والی پیش رفت، عدالتی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ گاڑی 12 مئی 2007ء ہی میں کھڑی ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عدالت عالیہ سندھ میں سانحہ 12 مئی سے متعلق از سر نو تحقیقات کے حوالے سماعت ہوئی جس میں عدالت کے جج جسٹس کے کے آغا کے ریمارکس ہیں کہ 12 مئی کا قتل عام طے شدہ منصوبہ تھا۔ کوئی تنظیم پشت پر تھی، باقاعدہ لوگ تعینات کیے گئے تھے۔ میڈیا نے جنہیں فائرنگ کرتے دکھایا ان کے مقدمات بھی اے کلاس کردیے گئے۔ یعنی عدم ثبوت کی بناء پر غیر موثر ہوگئے۔ عدالت عالیہ سندھ نئے سرے سے سماعت کررہی ہے یعنی اب تک جتنی سماعتیں ہوئیں ان کو ایک طرف رکھ کر نئی سماعت کی جائے گی۔ لیکن کسی سماعت کے بغیر کسی جے آئی ٹی کے بغیر پورے پاکستان میں کسی سے بھی پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ سانحہ 12 مئی طے شدہ منصوبہ تھا۔ یہ بات اس وقت کے چیف جسٹس چودھری افتخار اور ان کی تحریک کے شریک وکلا اور سیاسی لیڈروں کو بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ اس سانحے کی پشت پر کوئی تنظیم، بلکہ کون سی تنظیم تھی، اور اس تنظیم کی پشت پر کون سی قوت تھی۔کس نے کہاں کہاں لوگ تعینات کررکھے تھے۔ اور مقدمات کا حشر کس کے حکم پر کیا گیا۔ اب جو کچھ نئے سرے سے ہوگا اور کسی مقام پر پہنچنے تک متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پی ٹی آئی کا 9 نکاتی معاہدہ بروئے کار اور روبہ عمل آجائے گا جس کے ذریعہ کراچی آپریشن پر نظر ثانی شروع ہوگی اور یہ نظر ثانی کیا ہوگی؟؟ یہ نظر ثانی لنگڑوں، کالوں، پاجاموں، بھورے، ٹی ٹی، بھرم وغیرہ کے ناموں سے مشہور لوگوں کے خلاف ہونے والی کارروائی روکنے کا عمل ہوگی اور ایسے لوگ پھر ضمانتوں پر ہوں گے یا مقدمہ نیا رخ اختیار کرے گا۔ کبھی گواہ نہیں آئیں گے اور یہ کہانی اسی طرح چلتی رہے گی۔ ویسے بھی اب کراچی کے لیے ایم کیو ایم پاکستان غیر موثر ہوچکی اب تبدیلی آچکی ہے نئے مسائل نئی قیادت نئے انداز سامنے آئیں گے۔ معاملہ صرف 12 مئی کے سانحے کا نہیں ہے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ تحقیقات پر تحقیقات اور سماعتوں پر سماعتیں ہوتی رہیں ان سانحات میں ملوث لوگ الیکشن بھی لڑتے رہے باعزت رکن اسمبلی بھی بنتے رہے مرنے والے جان سے گئے ان کے ورثا بھولنا بھی چاہیں تو بھلا نہیں سکتے کیونکہ ایک تو یہ عام اموات نہیں تھیں، بلکہ سنگین نوعیت کی بے حسی کا اظہار تھا، سفاکی تھی۔ 269 لوگوں کو فیکٹری میں تالا ڈال کر زندہ جلانا کوئی معمولی واقعہ نہیں اور حالت یہ ہے کہ ان سانحات کے ذمے داران ناقابل ضمانت وارنٹ ہونے کے باوجود دندناتے پھر رہے ہیں۔پھر نئے نئے بیانات بھی مظلوموں کو سانحے کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ ان سانحات کے علاوہ ریٹائر ائر مارشل اصغر خان کیس کی بھی سماعت ہونے والی ہے۔ بالفرض یہ ثابت ہوجائے کہ آرمی چیف کے حکم پر آئی ایس آئی نے آئی جے آئی بنائی تھی۔ تو کیا فرق پڑے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے 30 سال بعد کسی عدالت میں یہ ثابت کردیا جائے کہ 2018ء کے انتخابات میں کس نے کس کے حکم پر دھاندلی کی تھی اور انتخابی نتائج تبدیل کیے تھے۔ اس سے آج کے حالات اور نتائج بھگتنے والوں کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ جو طالبعلم ہیں وہ ملازمتوں سے ریٹائرہورہے ہوں گے۔ اس عرصے میں بہت سے مرچکے ہوں گے۔ جو آج مناصب پر ہیں اور سیاست میں ہیں ان کی ہڈیاں گل گئی ہوں گی اور 30 برس بعد کچھ لوگ ایک دوسرے کو کسی کی باقیات کہہ کر الزام اور جوابی الزام کا کھیل کھیل رہے ہوں گے۔ اسے لکیر پیٹنا کہیں یا قوم کو بے وقوف بنانا۔ بہر حال یہ ہر طرح افسوسناک عمل ہے۔ یہ کہیں سے تو کنٹرول ہورہا ہوگا جو بھی اسے شروع کرتا ہے، پھر ختم کردیتا ہے۔ نیا کھیل سامنے لاتا ہے، نئے اتحاد بناتا ہے، نئے سانحات جنم لیتے ہیں، نئے مقدمات درج ہوتے ہیں پے چیدہ عدالتی نظام کی بھول بھلیوں میں 450 افراد کے قتل میں ملوث شخصیت کی با عزت گرفتاری سے با عزت پذیرائی اور بہ صد احترام ضمانت پر رہائی تک کے مناظر دکھاتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ ایسے کھیل کا ملک پر اس کے عوام پر اور خود ان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ لوگ اور ادارے بھی جانتے ہیں لیکن اس وقت جاننے لگتے ہیں جب ان کے پاس اختیار اور اقتدار نہیں رہتا۔ پھر اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان میں ایک کھیل جہادی تنظیمیں تیار کرنے، مجاہدین کی کھیپ ادھر سے ادھر بھیجنے کا بھی ہے، پہلے روس کیخلاف مجاہدین تیار ہوتے تھے اب امریکا کے خلاف ہوتے ہیں یہ لہر عام نوجوان تک پہنچتی ہے ان میں سے کوئی بہک جاتا ہے یا پھر کوئی پیسہ دے ڈالتا ہے تو اسے لاپتا کردیا جاتا ہے، یہ سب کیا ہے۔ ایک دفعہ معاملات سدھار کیوں نہیں لیتے۔ کیا تبدیلی کے بعد نئی حکومت اس کا کوئی حل نکال سکے گی۔