عوامی نمائندوں کا اجلاس، عوام مشکل میں 

202

سندھ اسمبلی کے پہلے اجلاس کے موقع پر اسمبلی کے ارکان کے تحفظ کے لیے سیکورٹی کے انتظامات اتنے سخت کردیے گئے کہ شہری تو شہری کئی ارکان اسمبلی کو بھی پریشانی ہوئی اور انہیں اسمبلی تک پیدل ہی جانا پڑا۔ سیکورٹی کے باعث گورنر ہاؤس، سپریم کورٹ، سندھ سیکریٹریٹ اور اسمبلی کے اطراف ٹریفک جام ہوگیا۔ پولیس اہلکار پوری جانفشانی سے عوام کا راستہ روک کر وی آئی پی ارکان کو راستہ دینے میں مصروف تھے لیکن اس کی وجہ سے اطراف کی سڑکوں پر دباؤ بڑھ گیا اور ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی۔ سندھ میں جو لوگ برسراقتدار ہیں ان کا دعویٰ تو یہی رہا ہے کہ وہ عوامی جماعت ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ ارب پتی بلاول زرداری نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں غریب طبقے اور نوجوانوں کے نمائندہ ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے جو لوگ بھی اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ بھی اسی طرح عوامی نمائندے ہیں جس طرح پیپلزپارٹی والے لیکن یہ وی آئی پی کلچر ہے کہ چھوٹے سے کونسلر سے لے کر وزیراعظم تک کسی کے دماغ سے نہیں نکلتا۔ اس کی تازہ مثال منگل کو پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عمران شاہ کی جانب سے ایک شہری پر تشدد ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس شخص نے کوئی غلطی کردی تھی تو بھی اس پر اس بری طرح تشدد کا کیا جواز تھا۔ جو ویڈیو ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی ہے اس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری پر تشدد کرنے والے میں غرور اور تکبر بھرا ہوا ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ چاروں طرف لوگ کھڑے تھے لیکن اس بدمعاشی کو نہیں روک سکے۔ اس ساری صورتحال کا دلچسپ جواب نامزد گورنر جناب عمران اسمٰعیل نے دیا کہ اگر عمران شاہ کے خلاف الزام ثابت ہوگیا تو ہم اسے اظہار وجوہ کا نوٹس دیں گے۔ پھر کیا ہوگا، اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پٹنے والا پٹ چکا۔ رکن اسمبلی رکن رہے گا۔ اس بد تمیزی اور غنڈہ گردی پر تو الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیا ووٹر کی یہ اوقات ہے کہ منتخب ہوتے اور حلف اٹھاتے ہی اس پر تھپڑوں کی بارش کردی جائے۔ ایسے شخص کی تو رکنیت ختم ہوجانی چاہیے۔