دھمکیاں کوں دے رہا ہے؟

232

معاملہ الٹا ہورہاہے۔ اب تک تو مسلم لیگ ن اور وہ سیاسی رہنما و تنظیمیں یہ شکوہ کررہے تھے کہ انہیں ہراساں کیا جارہاہے لیکن اب تو چیف جسٹس پاکستان نے کہہ دیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں پہلے گواہوں کو ہراساں کیا گیا اب ہمیں ہراساں کیا جارہاہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی خبر کی سرخی ہے کہ ’’پاک ناپاک پیسے کی پوچھ گچھ پر ہمیں ڈرایا جارہاہے۔‘‘ روزنامہ ایکسپریس کی سرخی ہے کہ ’’ججز کو ہراساں کیا جارہاہے۔ پاناما جے آئی ٹی میں فوجی افسر تڑکا لگانے کے لیے تھے۔‘‘ اس خبر کی ذیلی سرخی ہے کہ ’’نائیک صاحب آپ کے لوگوں نے مجھے ڈرادیا، پاک، ناپاک پیسے کی باز پرس پر اتنا شور، ہم طاقتوروں کے نشانے پر ہیں، اﷲ اور قوم تحفظ دیں گے۔ یہ صورتحال بڑی تشویشناک ہے۔ اگرچہ عدالتوں سے قوم اور سیاسی رہنماؤں کو بہت شکایات ہیں اس کا سبب عدالتی نظام اور طاقتوروں کی مداخلت بھی ہے لیکن اس کے باوجود عدالتوں نے گزشتہ برسوں میں اپنی حیثیت منوائی ہے۔ اس کے اعلیٰ ترین جج کا یہ کہنا کہ دھمکی دی جارہی ہے خاصا تشویشناک ہے۔ آج کل مسلم لیگ ن نے عدالتوں کے حوالے سے ایک بھرپور مہم بھی چلا رکھی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کی جانب سے بھی کوئی مہم عدلیہ کے خلاف چلائی جائے کیونکہ عدلیہ میں ان کے خلاف کیسز کی رفتار تیز ہوگئی ہے اور بہر حال آصف زرداری پریشان ہیں۔ تاہم جو بھی حقیقت ہے اسے سامنے لایا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس کہہ رہے ہیں کہ پاک ناپاک پیسے کی پوچھ گچھ پر ہمیں ڈرایا جارہاہے۔ مزید وضاحت آصف زرداری کے وکیل سے ریمارکس میں ہوگئی کہ آپ کے لوگوں نے مجھے ڈرادیا۔ ممکن ہے یہ ریمارکس محض برسبیل تذکرہ ہوں۔ لیکن اس جملے کا کیا کہا جائے کہ ججوں کو ہراساں کیا جارہاہے اور یہ کہ ہم طاقتوروں کے نشانے پر ہیں۔ ایک طاقت کی تو انہوں نے نشان دہی کردی کہ وہ نائیک صاحب کے لوگ یعنی آصف زرداری اور فریال تالپور کے لوگ ہیں اور ان سے پاک ناپاک پیسے یعنی منی لانڈرنگ کیس میں باز پرس پر یہ سب ہوا ہے۔ لیکن کیا یہی دونوں طاقتور ہیں یا کسی اور طاقت سے بھی کوئی دباؤ دھمکی یا خوف ہے۔ اس پس منظر میں جسٹس شوکت صدیقی کے انکشافات بھی ذہن میں رہیں۔عدلیہ پر اس حوالے سے بھی الزام ہے کہ وہ کسی طاقت کے دباؤ میں ہے اور بہت سے معاملات میں اس شبہے یا خیال کو تقویت ملتی ہے۔ مثلاً لاپتا افراد کا معاملہ۔ عدالتیں ایک حد تک جاسکتی ہیں۔ لہٰذا دوسرے طاقتوروں کا بھی پتا چل جائے تو ریاستی ادارے اس جانب توجہ دے سکیں گے۔ اب تو نئی قوت کے ساتھ نئی اسمبلی آئی ہے اس میں عمران خان کو بہت قوت ملی ہے ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ عدلیہ سمیت تمام اداروں پر سے دباؤ ختم کرائیں۔ لیکن کیا ہمارے موجودہ چیف کسی دباؤ میں آنے والے ہیں؟، یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ اب تک انہوں نے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ ایک مرتبہ پہلے بھی وہ عدلیہ پر دباؤ کے حوالے سے بات کرچکے ہیں تو اس کا از خود نوٹس لیا جانا چاہیے کہ ججز پر دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے اور کون ڈال رہا ہے۔ اس کے لیے کسی جے آئی ٹی کی بھی ضرورت نہیں عدالت خود یہ کام کرسکتی ہے اور یہ بات شاید فاروق نائیک کی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے افسران کو صرف تڑکے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔ اس تڑکے کے نتیجے میں خفیہ اداروں نے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے اس کا اندازہ چیف صاحب کو بھی ہے۔ البتہ ججز کو دھمکیاں اور چیف جسٹس پر دباؤ ڈالنا کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ چیف صاحب نے درست فرمایا اللہ اور قوم ان کا تحفظ کریگی۔ قدم بڑھائیں ججز پر دباؤ ڈالنے والے تمام افراد کے نام سامنے لے آئیں قوم اللہ کی مہربانی سے ججز کا تحفظ کریگی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری بھی چیف جسٹس تھے ان سے بھی بہت سوں کو شکایات تھیں لیکن قوم نے ان کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی تھی۔ بس فرق یہ تھا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف اقدامات کرنے والے طاقتور جنرل پرویز مشرف سامنے تھے۔ یہاں سب چھپ کر وار کررہے ہیں۔ اس صورتحال کا کچھ تعلق عدلیہ کی طرح دیگر اہم اداروں سے بھی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر ریاستی ادارے سیاست میں حصہ لیں گے تو موضوع بحث ہی بنیں گے اس عمل سے حالیہ انتخابات میں سیکورٹی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے اور اس کا اندازہ ریاست کے اہم ترین ادارے کو ہوچکا ہے کہ اب ہر طرف سے اس کے بارے میں غلط اور صحیح گفتگو ہورہی ہے۔ کم از کم یہ واحد ادارہ تھا جس کو سرعام اور خصوصاً میڈیا میں ہدف تنقید نہیں بنایا جاتا تھا لیکن صورتحال بگڑ گئی ہے۔ اس کا سبب وہی ہے جس جانب امیر جماعت نے نشاندہی کی ہے۔ یہی معاملہ عدالتوں کا بھی ہے۔ اگر بعض معاملات میں بعض لوگوں کی طرف جھکاؤ اور ان ہی جیسے معاملات میں کسی کی سخت گرفت کی جائے تو لوگ عدلیہ کے بارے میں بھی نعرے بازی کریں گے اور الٹی سیدھی باتیں بھی۔ چیف جسٹس صاحب ان دھمکیوں اور باتوں کی پروا نہ کریں صرف خدا کا خوف سامنے رکھیں اور انصاف کریں۔ آپ مطمئن رہیں گے۔ اتفاق نہ کیا تو دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گے۔