اسد قیصر کی کامیابی

235

قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف آسانی سے یہ مناصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ دوسری طرف متحدہ حزب اختلاف متحد نہیں رہی۔ اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر تحریک انصاف کے لیے اپ سیٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تحریک انصاف کے اسد قیصر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ وہ جب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت میں شامل تھے تو وہ بھی الزامات کی زد میں تھے۔ بہر حال اب وہ سب سے بڑے عوامی اور قانون ساز ادارے کے متولی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مشاورت سے ایوان چلائیں گے۔ یہ بڑی مثبت سوچ ہے۔ ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار خورشید شاہ تھے جن کو متحدہ اپوزیشن کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپوزیشن متحد نہیں رہی۔ خورشید شاہ بھی معقول آدمی ہیں اور 5 سال سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔ ان کے انتخاب سے قومی اسمبلی میں توازن پیدا ہونے کا امکان تھا ورنہ ایک ہی پارٹی کے وزیراعظم اور اسپیکر کی موجودگی میں توازن قائم نہیں رہے گا۔ پچھلی حکومت میں بھی یہی صورتحال رہی کہ وزیراعظم اور اسپیکر ایک ہی پارٹی کے تھے۔ بہر حال اسد قیصر نے منتخب ہونے کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’میں عہدے کا وقار اور پارلیمانی روایات کو برقرار رکھوں گا، ایوان کو چلانے کے لیے حزب اختلاف کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دوں گا اور غیر جانبداری برقرار رکھوں گا‘‘۔ وغیرہ۔ امید ہے کہ وہ اپنے اس عزم پر قائم رہیں گے۔ اس موقع پر ہارنے والے امیدوار خورشید شاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی کی پوری کوشش ہوگی کہ موجودہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے، اس کے لیے ہماری جماعت پورا تعاون کرے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں اب بھی ہورہی ہیں، اس کے باوجود ہم جمہوریت کی حمایت کریں گے اور ملک کے مفادات کے لیے ہونے والی قانون سازی میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما مرتضیٰ علی عباسی کی طرف سے یہ شکوہ بھی سامنے آیا کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لے جانا عوامی نمائندوں کی توہین ہے، نواز شریف سے جس طرح کا سلوک ہورہاہے اس طرح کا سلوک تو بھارتی فوج کشمیریوں سے بھی نہیں کررہی۔ مرتضیٰ علی عباسی شاید مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم سے با خبر نہیں، نہ اخبار پڑھتے ہیں اور نہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے مناظر کبھی ٹی وی پر دیکھے ہیں۔ بھارتی فوج تو کشمیریوں پر براہ راست گولی چلارہی ہے یا پیلٹ گن سے ان کی آنکھیں پھوڑ رہی ہے۔ وہ کشمیری قیدیوں کے تحفظ کے لیے نہ تو انہیں بکتر بند یا بلٹ پروف گاڑی میں عدالت لے جاتی ہے نہ ہی بیمار ہونے پر ان کے لیے میڈیکل بورڈ بٹھایا جاتا ہے اور انہیں کسی بڑے اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے۔ مرتضیٰ علی عباسی نے جو موازنہ فرمایا ہے اس کا فائدہ بھارتی درندوں کو ہوگا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک کررہے ہیں جو میاں نواز شریف کے ساتھ ہورہاہے۔ بکتر بند گاڑی میں لے جانا نواز شریف کے تحفظ کے لیے تھا حالانکہ وہ بھی سزا یافتہ قیدی ہیں۔ ان کے داماد کو الٹیاں آجائیں تو پمز اسپتال میں داخل کردیا جاتا ہے جب کہ ایسا سلوک اڈیالہ جیل کے دیگر قیدیوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ بہر حال ن لیگ کو نئی قومی اسمبلی میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا تھا سو کرادیا۔ رہی تین بار وزیراعظم رہنے کی بات تو یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف تینوں بار نکالے گئے یہ ان کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ بہر حال ابھی تو ہر طرف سے اچھی اچھی باتیں ہورہی ہیں۔ اصل نقشہ تو بعد میں نظر آئے گا۔ اس اثنا میں حزب اختلاف کی ساجھے کی ہنڈیا بھی کاٹھ کی ہنڈیا بنتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے متحدہ حزب اختلاف نے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا نام تجویز کیا تھا لیکن اب پیپلزپارٹی آناکانی کررہی ہے اور ان کو ووٹ دینے پر آمادہ نہیں۔ عذر یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف بہت کچھ کہتے رہے ہیں چنانچہ پارٹی میں ان کے نام پر اختلافات ہوگئے ہیں۔ لیکن کون کس کے خلاف کیا کچھ نہیں کہتارہا۔ خود زرداری اور بلاول مسلم لیگ ن کی قیادت پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن شاید پیپلزپارٹی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے لیے آصف زرداری کو سامنے لانا چاہتی ہے۔ اب یہ تو صاف ظاہر ہے کہ کسی کا بھی نام لیا جائے، عمران خان آسانی سے وزیراعظم بن جائیں گے۔