کرن تھاپر بھارت کے معروف صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف Devil’s Advocate میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنے ایک ناکام انٹرویو کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ یہ تفصیلات ڈان کراچی نے اپنی 5 اگست 2018ء کی اشاعت میں شائع کی ہیں۔ ان تفصیلات کو پڑھ کر بھارت کی ہندو قیادت کا ذہنی سانچہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ سامنے آگیا۔ یہ ذہنی سانچہ ایسا ہے کہ اسے دیکھ کر انسان کیا شیطان بھی شرمندہ ہوسکتا ہے۔کرن تھاپر کے بقول وہ اکتوبر 2007ء میں ایک ٹیلی وژن چینل کے لیے نریندر مودی سے انٹرویو کرنے پہنچے۔ نریندر مودی اس وقت بھارتی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ کرن تھاپر کا طیارہ احمد آباد کے ہوائی اڈے پر اُترا تو ان کے موبائل کی گھنٹی بج اُٹھی۔ فون پر نریندر مودی موجود تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ کرن تھاپر خیریت سے احمد آباد پہنچ گئے ہیں یا نہیں۔ کرن تھاپر نے اس کال سے اندازہ لگایا کہ نریندر مودی میڈیا کے معاملے میں کتنے حساس ہیں۔ انٹرویو شروع ہوا تو کرن تھاپر کا پہلا سوال یہ تھا۔سوال:۔ ’’مودی صاحب گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن نے گجرات کو بہترین انتظامی اہلیت کے ساتھ چلایا جانے والا صوبہ قرار دیا۔ بھارت کے ممتاز جریدے ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ نے آپ کو دوبارہ بھارت کا سب سے بہتر کارگزاری دکھانے والا وزیراعلیٰ قرار دیا۔ ان سب باتوں کے باوجود لوگ آپ کو گجرات کے فسادات کی وجہ سے عوام کا قاتل اور مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے والا شخص قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ کو ساکھ کے مسئلے یا Image Problem کا سامنا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے نریندر مودی نے کہا۔ آپ ’’لوگوں‘‘ کی اصطلاح استعمال نہ کریں۔ صرف دو یا تین ’’افراد‘‘ میرے حوالے سے مذاکرہ اصطلاح میں گفتگو کرتے ہیں۔
سوال:۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ صرف چند افراد کی سازش ہے؟‘‘
جواب:۔ ’’میری اطلاع یہی ہے۔ آپ نے جو کچھ کہا وہ ’’لوگوں‘‘ کی آواز نہیں ہے‘‘۔ کرن تھاپر نے لکھا کہ نریندر مودی کا خیال درست نہیں تھا کیوں کہ بھارتی سپریم کورٹ بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی مودی کے بارے میں وہی کہہ چکے تھے جو میں نے کہا تھا۔ چناں چہ کرن تھاپر نے مودی سے کہا۔ ’’بھارتی سپریم کورٹ نے 2003ء میں کہا کہ وہ گجرات حکومت پر اعتبار کھو چکی ہے۔ 2004ء میں سپریم کورٹ کے سربراہ نے کہا کہ نریندر مودی عہد جدید کا نہرو ہے۔ کیوں کہ جب اس کے صوبے میں معصوم بچوں اور خواتین کو زندہ جلایا جارہا تھا تو وہ بچوں اور خواتین کی جانب دیکھنے کے بجائے کہیں اور دیکھ رہا تھا‘‘۔ کرن تھاپر کا یہ تبصرہ سن کر مودی نے کہا:۔ ’’آپ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھیں۔ کیا اس میں سپریم کورٹ نے تحریری طور پر کچھ کہا ہے؟ اگر کچھ کہا ہے تو مجھے مطلع کرو میں اسے سن کر خوش ہوں گا‘‘۔ کرن تھاپر کے بقول اس وقت تک انہوں نے خود سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں دیکھا تھا چناں چہ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تحریری طور پر کچھ نہیں کہا مگر اس نے اپنی Observations میں وہی کچھ کہا ہے جو میں نے آپ کے سامنے دہرایا۔ تاہم کرن تھاپر نے لکھا ہے کہ بعدازاں انہوں نے سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ دیکھا تو اس میں بھارتی سپریم کورٹ نے لکھا تھا۔ ’’جب گجرات میں معصوم بچوں، عورتوں اور املاک کو جلایا جارہا تھا تو عہد جدید کا نہرو کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اسے ظالموں کو کس طرح بچانا ہے‘‘۔ بہرحال انٹرویو کے دوران کرن تھاپر نے پوچھا: ’’آخر آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ کو گجرات میں (مسلمانوں) کے قتل عام پر افسوس ہے۔ آخر آپ یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ حکومت کو مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے تھا‘‘۔ مودی:۔ ’’مجھے جو کہنا تھا کہہ چکا‘‘۔ کرن تھاپر:۔ آپ جو کہہ چکے اسے ایک بار پھر دہرا دیجیے۔ مگر مودی نے اس سلسلے میں بات کرنے سے انکار کردیا۔ کرن تھاپر کے بقول اب تک صرف دو تین منٹس کا انٹرویو ہوا تھا۔ مودی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ اچانک مودی نے کہا:۔
’’میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے پانی کی ضرورت ہے‘‘۔ اور اس کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا۔ کرن تھاپر کے بقول اس کے بعد مودی نے انہیں کھانا کھلایا، مٹھائی پیش کی اور کہا کہ وہ کسی اور وقت انٹرویو دے دیں گے۔ ایک جانب یہ صورت حال تھی، دوسری جانب کرن تھاپر کو باخبر لوگوں نے بتایا کہ نریندر مودی نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ کرن تھاپر کو معاف نہیں کریں گے اور ان سے انتقام لے کر رہیں گے۔ کرن تھاپر کے بقول مودی اور بی جے پی اس دو تین منٹ کے انٹرویو کی وجہ سے کرن تھاپر اور ان کے چینل کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں۔ کرن تھاپر مسلمان نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کی حمایت کی تھی، انہوں نے صرف گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے ایک سوال پوچھا تھا۔ مودی اس سوال کا کوئی بھی جواب دینے میں آزاد تھے مگر مودی کا جرائم زدہ شعور ایک سوال کے جواب میں اپنی آزادی تک کو بروئے کار نہ لا سکا۔ اگر وہ کہہ دیتے کہ ہم مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا تو ان کا کچھ بگڑ نہ جاتا۔ مگر انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ یہ کہیں گے تو پکڑے جائیں گے۔ سوال کرنے والا پھر پوچھے گا کہ ذرا اس قدم کی نشاندہی کریں جو آپ نے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اٹھایا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مودی کا ذہنی سانچہ اور ان کا باطن کتنا غلیظ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف مودی تک محدود نہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پورے ملک یہاں تک کہ دہلی میں مسلم کش فسادات ہورہے تھے۔ مسلمانوں کو گلی گلی مارا جارہا تھا، ان کی املاک نذر آتش کی جارہی تھیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کی قیادت کو مسلسل اس جانب متوجہ کررہے تھے مگر نہ گاندھی نے کچھ کیا، نہ نہرو نے۔ مولانا نے نہرو سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ میں تو وزیرداخلہ سردار پٹیل سے مسلسل کہہ رہا ہوں کہ کچھ کرو مگر وہ کچھ کرتے ہی نہیں۔ گاندھی ’’مہاتما‘‘ اور ہندوؤں کے ’’باپو‘‘ تھے۔ نہرو ملک کے وزیر اعظم تھے، چناں چہ سردار پٹیل ان کے دائرہ قدرت سے باہر نہیں تھے، مگر سردار پٹیل نے خود کچھ نہیں کیا اور گاندھی اور نہرو نے ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ حمام میں سب ننگے تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مودی نے جو کچھ گجرات میں کیا وہی گاندھی، نہرو اور پٹیل نے 1947ء میں کیا۔ سکھ ہندوؤں کے بازوئے شمشیر زن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وہ ہندو ازم میں اس حد تک جذب ہوگئے ہیں کہ وہ ہندوؤں کا ایک ’’فرقہ‘‘ محسوس ہوتے ہیں۔ مگر اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کیا تو ہندوؤں نے ایک دن میں دہلی کے اندر دو سے تین ہزار عام سکھوں کو قتل کر ڈالا۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی ہندو جماعت کے رہنما نے اس موقع پر یہ نہ کہا کہ عام سکھ اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں کے جرم کے ذمے دار نہیں۔ ہندو سیاست دان اگر اس مرحلے پر اخلاقی اور عقلی پوزیشن لے کر کھڑے ہوجاتے تو سیکڑوں بے گناہ سکھوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ مگر ہندو رہنماؤں کو اخلاقیات چھو کر بھی نہیں گزری۔
بابری مسجد صرف اپنی شہادت کی وجہ سے ہندو قیادت کی انسانیت سوزی کی علامت نہیں بلکہ اس مسجد کی شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس مسجد نے بھارت کے نظام انصاف کا بھی پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بابری مسجد کی جگہ کبھی بھی کوئی مندر موجود نہ تھا مگر بھارت کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ بیک وقت ایک مندر اور ایک مسجد بنالی جائے۔ عدالت کا اصرار ہے کہ ہندو اور مسلمان عدالت سے باہر رہتے ہوئے معاہدہ کرلیں اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش نکالیں۔ اس رویے سے معلوم ہوا کہ بھارت میں صرف ہندو رہنما ہی متعصب نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی متعصب ہیں۔ وہ انصاف نہیں کرتیں بلکہ وہ انصاف کرنے سے قبل یہ دیکھتی ہیں کہ جس کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے وہ ہندو ہے یا مسلمان۔ مسلمان ہے تو وہ کبھی ہندو کے برابر نہیں ہوسکتا۔ شری شری روی شنکر اس وقت بھارت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت ہیں۔ روحانی شخصیات سیاست سے بلند ہوتی ہیں۔ ان کے لیے اصل چیز انصاف ہوتا ہے، انسانیت ہوتی ہے، مگر شری شری روی شنکر نے گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں صاف کہا ہے کہ اگر بھارت کی اعلیٰ عدالت نے بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیا تو بھارت شام بن سکتا ہے، یعنی بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہوسکتا ہے۔ ارے بھائی جب ہندوستان کی عدالت انصاف کرے گی تو آخر مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہوگا؟ اور اگر مسلمانوں کا قتل عام ہوگا تو اس کے ذمے دار مسلمان ہوں گے یا ہندو؟ اس سے معلوم ہوا کہ ہندوؤں کی تو ’’روحانیت‘‘ بھی ہندو مسلم کھیل رہی ہے۔ جسونت سنگھ بی جے پی کی رہنما اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ تھے۔ ان کی ساری زندگی ’’بھارت ماتا‘‘ کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات سے پوری طرح ہم آہنگ تھے، البتہ انہوں نے قائد اعظم پر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ انہوں نے کتاب میں وہی کچھ کہا ہے جو ہندو مورخین کہتے آئے ہیں۔ یعنی یہ کہ محمد علی جناح تقسیم برصغیر کے ذمے دار تھے۔ البتہ جسونت سنگھ نے تاریخی مثالوں کے ذریعے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جناح تقسیم کے واحد ذمے دار نہیں تھے بلکہ کانگریس کی قیادت بالخصوص پٹیل بھی تقسیم کے ذمے دار تھے۔ جسونت سنگھ کا یہ کہنا غضب ہوگیا۔ انہیں بی جے پی سے نکال باہر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جسونت سنگھ مشرف بہ اسلام ہوگئے؟ یا انہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگادیا؟۔ ظاہر ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، انہوں نے تاریخ پر تاریخی شہادتوں کے ذریعے بات کی مگر ہندو قیادت نے ’’علمیت‘‘ کو بھی ’’گناہ‘‘ بنادیا۔ ذاکر نائیک کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ وہ تقابل ادیان کے ماہر ہیں، انہیں جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ اسٹیج پر کھلے عام کہتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں یک طرفہ طور پر نہیں کہتے بلکہ وہ تقابل ادیان کے عیسائی اور ہندو ماہرین کو بھی اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیتے ہیں۔ مگر چوں کہ ذاکر نائیک کے دلائل مناظروں میں برتر ثابت ہوتے ہیں اور ان دلائل سے متاثر ہو کر بہت سے ہندو مسلمان ہوجاتے ہیں، اس لیے بھارت کی ہندو قیادت نے ذاکر نائیک پر انتہا پسندی کا جھوٹا اور من گھڑت الزام لگا کر انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ ان حقائق کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ بھارت کی قیادت ستر اسّی سال سے روحانی، نفسیاتی اور ذہنی مریضوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے مریض جن کے پاس نہ علم ہے، نہ اخلاق، تہذیب ہے نہ تاریخ، انسانیت ہے نہ سیاست۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ یہ ہے وہ بھارت میاں صاحب ہمیں جس کے آگے ڈالے دے رہے تھے، یہ ہے وہ ہندو قیادت جس سے کارگل کے ہیرو جنرل پرویز نے مذاکرات کی بھیک مانگی اور وہ مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل قبول کرنے پر آمادہ تھے۔ اب خیر سے عمران خان اقتدار میں آگئے ہیں، مغربی ذرائع ابلاغ نے ابھی سے مسئلہ کشمیر پر ’’بریک تھرو‘‘ کی پیشگوئی کردی ہے۔ خدا خیر کرے۔