نئے گملے اور پرانی پنیریاں

364

ملک بھر میں شجرکاری ہورہی ہے ہر کوئی پودا لگارہا ہے۔ یار لوگوں نے سماجی میڈیا پر یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اس سال پرچم نہ لہراؤ، ویسے بھی زمین پر گر جاتا ہے اس کے بجائے ایک ایک پودا لگاؤ۔ ایسا مشورہ دینے والوں اور اگر کسی نے عمل کرلیا ہو تو اسے بھی کسی نے غدار تو قرار نہیں دیا ہوگا۔ لیکن ہم کسی اور فکر میں ہیں، پاک فوج نے ایک کروڑ پودے لگانے کا اعلان کیا ہے۔ 25 لاکھ لگا بھی دیے ہیں۔ عمران خان بھی کے پی کے میں ایک کروڑ درخت لگارہے تھے وہ تو انہیں موقع نہیں ملا ورنہ تعداد پوری ہوجاتی۔ سندھ میں بھی جگہ جگہ پودے لگائے گئے ہیں، بلدیات پودے مفت تقسیم کررہی ہیں لیکن یہ مفت نہیں ہیں۔ ان کی قیمت سرکاری خزانے سے وصول کرکے تقسیم کیا جارہا ہے۔ تو اس کی قیمت عملاً عوام ہی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں پودے اور پنیری ہمیشہ سے مسئلہ رہے ہیں۔ میڈیا میں ہر دم نظر آنے والے شیخ رشید سب سے زیادہ یہ جملہ استعمال کرتے رہے ہیں کہ یہ ایک ہی گملے کی پنیری ہیں، وہ فوجی گملے کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے۔ الزام تو ان پر بھی یہی ہے کہ وہ خود فوجی گملے کی پنیری ہیں اور وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ پنیریاں لگانے کا سلسلہ تو جنرل ایوب کے زمانے سے شروع ہوچکا تھا اور سب سے زیادہ پنیریاں اور پودے جنرل ضیا الحق کے زمانے میں لگائے گئے تھے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے 342 کے ایوان میں جتنے نئے پودے لگائے گئے ہیں اور بڑی محنت سے مالیوں نے بہت سے پودوں کے گملے تبدیل کیے ہیں یعنی ایک گملے سے نکال کر دوسرے میں ڈالے ہیں اس کے نتائج قوم برسہا برس بھگتے گی۔ ایک دو کروڑ پودے لگا کر بھی اس قوم کو مار کر سایے میں ڈالنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ جو پودے اس طرح لگائے جاتے ہیں ان میں پھول کم اور کانٹے زیادہ ہوتے ہیں اور یہ سایہ دار بھی نہیں ہوتے۔
گملے اور پنیری کی بات نکلی تو اندازہ ہوا کہ ایسے گملوں کی پنیری طاقتور درخت تو نظر آنے لگتی ہے لیکن نہ جڑیں ہوتی ہیں اور نہ رواداری۔ رواداری کا ذکر یوں آیا کہ آج کل فوجی گملے کی پنیریوں کی سب سے بڑی کھیپ جو سیاست میں ہے وہ جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں لگائی گئی تھی اور 17 اگست جنرل ضیا الحق کے طیارے کے حادثے میں شہادت کا دن گزر گیا۔ پوری پنیری کیا پنیریوں کا باغ قریب ہی قومی اسمبلی میں عسکریت، اکثریت وغیرہ کھیلنے میں مصروف تھا، کوئی ضیا الحق کے مزار پر نہیں گیا، کم از کم میاں شہباز شریف کو جا کر میاں نواز شریف کی طرف سے ایک چادر ضرور چڑھانی چاہیے تھی۔ ویسے بھی میاں صاحب مشکل میں ہیں، مالی کا اتنا تو خیال کرلیتے، اب تو جو مالی ہے وہ کسی اور گملے میں پنیری لگا رہے ہیں اور پانی بھی وہیں مر رہا ہے، تو کم از کم اپنے مالی کے مزار پر کوئی پودا لگا کر آجاتے۔ کراچی میں 1987ء میں بعینہ نئی پنیری لگائی گئی تھی، 1986ء تک جماعت اسلامی کے میئر کراچی میں تھے کونسلرز کی اکثریت تھی لیکن مالی نے بلدیہ توڑ دی پورا گلستان اجاڑ دیا اور نئی پنیری لگائی۔ لوگ حیران تھے کہ کیا ہوگیا کل تک تو سب افغانی صاحب اور ان کی ٹیم کے دلدادہ تھے لیکن اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید آر ٹی ایس تھا ہی نہیں اور فارم 45 بھی تھے یا نہیں۔ بس نتیجہ شام 6 بجے سے آنا شروع ہوا اور فتح کے جلوس ساڑھے پانچ بجے سے گھوم رہے تھے۔ پھر یہ پنیری اتنی طاقتور اور اتنی کانٹے دار ہوگئی کہ مالی کو اس کی کاٹ چھانٹ پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک شاخ سے نیا پودا لگایا، کسی شاخ کو نکال کر نئی پنیری کے ساتھ قلم لگادی، کسی کو بے کار بنا کر الگ ہی کردیا نہ اسمبلی میں آنے دیا نہ پارٹی کی قیادت دی۔ لیکن بات یہ ہے کہ مالی کو ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوئی کہ ایسی پنیری کیوں لگائی جس نے پورے گلشن کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ اب اس اجاڑنے والی پنیری کے ٹکڑے نئے گملے میں ڈال دیے ہیں یعنی پھل تو وہی ملے گا جو 1987ء والی پنیری نے دیا تھا۔ پہلے والے پودوں نے تاخیر کی تھی نئے والوں نے ابھی سے رنگ دکھانا شروع کردیا۔ سچ ہے وہ وی آئی پی کلچر کے مخالف ہیں۔ یہ جو تھپڑاؤ عمران علی شاہ نے کیا تھا وہ داؤد چوہان کے وی آئی پی کلچر کے خلاف جہاد ہی تو تھا۔ ایک عام آدمی کی کیا مجال کہ ایم پی اے سے پوچھے کہ آپ کون ہیں۔ یہ داؤد چوہان وی آئی پی رہا تھا، لیکن یہ ہوا کہ اب تو داؤد چوہان سمیت پوری قوم کو پتا چل گیا کہ وی آئی پی کلچر کے خلاف جہاد کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو پنیری کی کونپل پھوٹی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔