سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد

198

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سوشل میڈیا پرتوہین آمیز مواد کا نوٹس لے لیا۔ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پرفحاشی اورتضحیک پر مبنی ڈیٹا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیاہے۔ سائبر کرائم کے تحت مقدمات درج کیے جارہے ہیں اور ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے سخت ایکشن لیا جاتاہے۔ پی ٹی اے حکام کا کہنا تھا کہ فیس بک، واٹس ایپ، ڈیلی موشن اوریوٹیوب کے لیے فوکل پرسن نامزد کردیے گئے ہیں۔ ٹوئٹراتھارٹی کو بھی کہہ دیا گیا کہ اگر اس نے 15 دن میں پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو ان کی ویب سائٹ بلاک کردی جائے گی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ سوشل میڈیاکو کنٹرول کرنے کے لیے قانون بن گیا ہے، جس کے تحت 3 سال سزا اور 10ملین جرمانہ ہوگا۔ اس ضمن میں اسپیشل سسٹم بھی منگوائے گئے ہیں، جو جعلی اور من گھڑت ڈیٹا اپ لوڈ کرنے والوں کو فوری طورپر ٹریس کرلیں گے۔ سوشل میڈیا پر نازیبا خاکو ں کی شکایات 2015ء میں سامنے آئیں۔ تین سال گزرنے کو ہیں اور اب تک تحقیقاتی ادارے صرف جدید سسٹم منگوانے کی نوید سنارہے ہیں۔ اس دوران مشتبہ لوگوں کے خلاف کارروائی تو درکنار ایف آئی حکام صرف شکایات درج کرکے شہادتوں کا تزکیہ کرتے رہے۔ اب تک اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ اب ہائی کورٹ کی دھمکی کے بعد قانون بن گیاہے تو خلاف ورزی میں بھی آسانی رہے گی۔ پچھلے ہفتے جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب نوکریاں بچانے کا وقت آیا تو فوراًجعلی اکاؤنٹس ٹریس کرلے گئے، لیکن ناموس رسالت پر گندگی اچھالنے والوں کے نام اور ایڈریس ٹریس نہیں ہوپا رہے۔ ہائی کورٹ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ جب معاملہ اپنی ذات کا ہو تو سارے مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماری صرف ایف آئی اے کی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اس مرض کا شکار ہے۔ گزشتہ ماہ ہالینڈ میں گستاخی پرمبنی خاکوں کا مقابلہ کرانے کا اعلان کیا گیا۔ مسلمان حکمرانوں میں سے کسی نے ہالینڈ سے تعلقات منقطع کیے نہ سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ اس کے برعکس چند روز قبل سعودی عرب نے کینیڈا سے تمام روابط صرف اس بناپر ختم کردیے کہ وہ مملکت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مرتکب ہوا تھا۔ اگر اسی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عرب ممالک ہالینڈ کو تیل برآمد بند کردیتے تو یقیناًان کے خزانے کو نقصان نہیں پہنچتا ہاں ہالینڈ کو دوبارہ یہ حرکت کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ پاکستان ہویا دنیا کا کوئی بھی اسلامی ملک، ہمیں مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ عالم کفر کی جانب سے ایسے اقدامات تو صرف یہ جانچنے کے لیے ہوتے ہیں کہ راکھ میں کہیں کوئی چنگاری سلگ تو نہیں رہی۔